پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات شروع دن سے اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ کشیدہ تعلقات کی ذمہ داری جہاں دونوں ممالک کے حکمرانوں پر رہی ہے وہیں اس کشیدگی کو ہوا دینے میں بھارتی کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے قیام کے بعد سے آج تک بنگلہ دیشی قیادت کا جھکاؤ ہمیشہ بھارت کی طرف ہی رہا اور بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے ہمیشہ بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ باہمی تعلقات میں کشیدگی ختم کرنے کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے پہل کی اور دو روز قبل ہی انہوں نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا جس میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی بحالی اور انہیں مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ۔ شیخ حسینہ واجد کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تاکہ رشتوں میں جو ان دیکھی دراڑیں پڑ گئی ہیں، مل کر ان کو ختم کیا جا سکے۔پاکستان کے ساتھ تعلقات بگاڑنے میں کچھ ہاتھ بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کا بھی ہے ۔ وہ یوں کہ ایک تو انہوں نے ابھی تک 1971ء کے واقعات کی تلخ یادوں پر قابو نہیں پایا جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کی تخلیق ہوئی۔ دوسرے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد 1974ء میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا تھا ۔ اس معاہدے کے تحت بنگلہ دیش سمیت تمام ممالک نے 1971ء کے واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف مقدمات کی پیروی نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
خطے کے حالات کے پیش نظر دونوں مسلم برادر ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی بہت خوش آئند ہے۔ عمران خان نے حسینہ واجد کومقبوضہ جموں و کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان کے نکتہ نظر سے بھی آگاہ کرتے ہوئے خطے کے امن و خوشحالی کیلئے تنازع کشمیر کے پر امن حل کی اہمیت پربھی زور دیا۔پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ افراد کے مابین رابطے بڑھانا چاہتا ہے اور تجارت ، کاروبار ، تعلیم ، ثقافت اور کھیلوں کے شعبوں میں باہمی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ہمیں اپنے تجارتی شعبوں کے مابین متوقع پیداواری مصنوعات کو آسان بنانے کے لئے شراکت میں کام کرنا ہوگا جس میں ایک دوسرے کی تجارتی نمائشوں اور شوز میں مضبوط شرکت اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مابین قریبی تعاون شامل ہے۔ دونوں ممالک کو اپنے کاروباری ویزہ اُصولوں سے متعلق امور کوبہتربنانے کیلئے بھی مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ پاکستان نے پہلے ہی بنگلہ دیش کو ویزا کیٹیگری’’ اے ‘‘میں ترقی دے دی ہے ۔ بنگلہ دیش حکومت کا ایسا ہی اقدام ہماری کاروباری برادریوں کے مابین باہمی رابطے کو فروغ دینے میں مدد فراہم کرسکتا ہے جو مضبوط تجارتی تعلقات کی ایک شرط ہے۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم اگر پاکستان کا دورہ کرے تو کھیل کے میدان میں بھی دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس سے دونوں ممالک کے افراد کو ہر سطح پر تعمیری باہمی مشغولیت کو مزید فروغ دینے میں مدد ملے گی۔
بنگلہ دیش کے ساتھ روابط میں مضبوطی لانے کیلئے پاکستان یہ بھی کہہ رہا ہے کہ دونوں ممالک کے مذہب اور ثقافت ایک ہیں۔پاکستانی ہائی کمشنر نے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ہم اپنے برادر ملک بنگلہ دیش کے ساتھ تمام شعبوں میں ایک مضبوط رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے سفارتکاروں کے درمیان ملاقات یکم جولائی کو ہوئی یعنی اس وقت جب بھارت کی شمالی اور مشرقی سرحدوں پر چین اور نیپال سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ بنگلہ دیش میں ہمیشہ سے ایک ایسا دھڑا رہا ہے جو پاکستان سے قریبی تعلقات چاہتا ہے اور وہ پاکستان سے علیحدگی کے بھی حق میں نہیں تھا۔یہ دھڑا بنگلہ دیش کی حکومت کو یہ بات منوانے میں کامیاب ہو گیا ہے کہ پاکستان روہنگیا مہاجرین کا مسئلہ حل کرنے اور انھیں میانمار واپس بھجوانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔گزشتہ چند برسوں سے بنگلہ دیش میں تقریباً 10 لاکھ کے قریب روہنگیا مہاجرین مقیم ہیں جس کی وجہ سے چھوٹے سے ملک کی آبادی میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ ملک کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔حال ہی میں بنگلہ دیش کے اربوں ڈالر کے پراجیکٹ چین کو ملے ہیں اور چین نے بنگلہ دیشی مصنوعات پر سے کئی طرح کے ٹیکس ختم کر دئیے ہیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کو فروغ ملا ہے۔ بنگلہ دیش پاکستان کی ہی طرح چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کا بھی حصہ ہے۔