کشمیر میں جنگ بندی کے بعد حالات کافی پرسکون ہو گئے تھے۔1953تک شیخ عبداللہ کی حکومت رہی ان کو ہٹانے کے بعد بخش غلام محمد وزیر اعظم بنے اور پھر 4 اکتوبر 1963میں شمس الدین نے اقدار سنبھالا ۔بخش غلام محمد کے 10سالا دور میں ریاست کو ہندوستان میں ضم کرنے کے قانونی اور آئینی اقدامات ہوتے رہے جموں کشمیر کانفرنس کے لیڈر ان چوہدری غلام عباس اور میر واعظ مولوی یوسف وغیرہ جیلوں سے رہا ہوئے تو آزاد کشمیر منتقل ہو گئے اور مقبوضہ کشمیر سے الحاق کی بات کرنے والی کوئی آوازنہ رہی۔یوں لگتا تھا عوام نے حالات کو اپنی قسمت سمجھ کر سمجھوتاکر لیا ہے لیکن پھر 26اور 27دسمبر 1963کی رات کو ایسا واقع رو نما ہوا جس نے مقبوضہ کشمیر ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان کی سیاست میں طوفان برپا کر دیا۔یہ واقع تھا سرینگر کے قریب واقع حضرت بل کی درگاہ سے موئے مقدس کا چوری ہو جا نا ۔موئے مقدس پیغمبر اسلام ﷺ کے بال تھے جن کو شیشے کی ایک ٹیوب میں محفوظ کیا گیا تھا ۔یہ موئے مقدس مدینہ منورہ کا سید عبداللہ نامی شخص لے کر آیا تھا اور حیدرآباد دکن کے قریب بے جا پور آباد ہو گیا۔اس کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے سید حامد نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھال لی۔لیکن جب یہ علاقہ مغل بادشاہ اورنگزیب نے فتح کر لیا تو سید حامد کو اس کی جاگیر وغیرہ سے ہاتھ دھونا پڑا تو اس نے متبرک موئے مبارک ایک کشمیری سودا گر خواجہ نور الدین ایشیائی کے حوالے کر دیا ( کہا جاتا ہے بیچ دیا)۔اورنگزیب عالم گیر کو اس کا علم ہوا تو اس نے خواجہ نورالدین کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا اور موئے مقدس کو اجمیرشریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ بھیجوا دیا ۔کچھ عرصہ بعد اورنگزیب کو احساس ہواکہ اس سے یہ زیاتی ہوئی ہے تو اس نے نورالدین کو رہا کرنے کا حکم دیا ۔اس دوران نورالدین کا انتقال ہو گیا اور اس کی میت کو کشمیر اس کی بیٹی عنایت بیگم کے پاس بھیجوایا گیا اور ساتھ ہی موئے مبارک بھی عنایت بیگم کے حوالے کر دیا گیا 1700میں عنایت بیگم نے درگا ہ حضرت بل (عزت والی جگہ)قائم کی اور موئے مقدس کو اس میں محفوظ کر دیا گیا ۔
عنایت بیگم کے خاندان کے مرد اس درگا ہ کے مجاور مقرر ہوتے ہیں ان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا مقرر ہوتا ہے ۔موئے مقدس والی ٹیوب کو اخروٹ کی چوبی کاری والے ایک لکڑی کے صندوق میں رکھ کر درگاہ کے بیچ ایک کمرے میں رکھا گیا ہے جس پر ہر وقت تالا لگا رہتا ہے اور چابی مجاور کے پاس ہوتی ہے ۔عوام کے لیے دیدار صرف خاص مذہبی مواقع پر جیسا کہ یوم ولادت نبی پاک ﷺ اور چاروں خلفاء راشدین کی ولادت پر کرایا جاتا ہے ۔
وقوع کے روز مجاور عبدالرحیم بانڈے جب صبح زیارت پہنچے تو کمرے کا تالا ٹوٹا ہوا تھا اور صندوق بھی کھلا ہو اتھاجبکہ موئے مقدس موجود نہ تھا ۔اس واقع کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے سرینگر میں پھیل گئی اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں حضرت بل جمع ہونے شروع ہونے لگے ۔جیسے ہی خبر دوسرے شہروں میں پہنچی احتجاجی جلوسوں کی شکل میں لوگ سرینگر پہنچنا شروع ہو گئے ۔پورے شہر میں نہیں بلکہ پوری وادی کا نظام زندگی معطل ہو گیا ۔شہر میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ بخشی غلام محمد کی حرکت ہے کہ امن وامان کا مسئلہ پیدا ہو اور اس کو واپس وزیراعلیٰ بنا دیا جائے ۔اس تاثر کے پھیلتے ہیں عوام نے غیض وغضب میں بخشی غلام محمد کے سینما ،ہوٹل اور دوسری جائیدادوں کو آگ لگا دی ۔حالات اتنے خراب ہو گئے کہ کرفیو لگانا پڑا۔
مقبوضہ کشمیر کے دوسرے علاقوں آزاد کشمیر اور پاکستان میں شدید احتجاج ہوا۔ہندوستان کے مختلف علاقوں خاص طور پر مغربی بنگال میں ہندومسلم فسادات پھوٹ پڑے ۔ان حالات کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں نشر کی گئیں ۔اس واقع نے ہندوستان کی حکومت اور وزیراعظم نہرو کو ہلا کر رکھ دیا ۔نہرونے وزرا ء کا ایک وفد لال بہادر شاستری (نہرو کے بعد ہندوستان کے وزیراعظم بنے) کی سربراہی میں سرینگر بھیجا ۔ہندوستا ن کی انٹیلی جنس کے سربراہ بھولاناتھ ملک کو بھی سرینگر بھیجا گیا ۔4جنوری کو اچانک ریڈیو سرینگر سے اعلان کیا گیا کہ موئے مقدس ڈھونڈ لیا گیا ہے ۔کیسے ملا یہ راز آج تک معلوم نہیں ہو سکا ۔بھولا ناتھ ملک کا کہنا ہے کہ اس موئے مقدس کے غائب ہونے اور ملنے کے اصل واقعات کا ان کو معلوم ہے لیکن یہ راز ان کے دل میں ہی رہے گا ۔
موئے مقد س کے واپس مل جانے کے بعد بھی احتجاج ختم نہ ہوا اور یہ شک ظاہر کیا جانے لگا کہ یہ اصلی ہے کہ نقلی ۔موئے مقدس کی تحقیقات اور ا س کے اصلی یا نقلی کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک ایکشن کمیٹی قائم کر دی گئی ۔اس کے رو ح رواں 1932میں قائم ہونے والی مسلم کانفرنس کے اولین لیڈروں میں سے ایک مولانامحمد سعید موسوی تھے ۔ایکشن کمیٹی کے مطالبہ پر دیدار کا انتظام کیا گیا جس میں فیصلہ ہوا کہ موئے مقدس اصلی ہے ۔جس کمیٹی نے دیدار کیا اس میں مولانا موسوی اور شیخ عبداللہ کے فرزند فاروق عبداللہ سمیت 14اشخاص شامل تھے۔بات یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ ایکشن کمیٹی کی شاخیں ریاست کے مختلف شہروں میںقائم کر دی گئیں تقریباََ تمام قائدین اس میں شامل ہو گئے ۔جب شیخ عبداللہ اپریل میں رہا ہو کر سرینگر پہنچے تو یہ ایکشن کمیٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ایک کی قیادت شیخ عبدا للہ اور ان کے دست راست مرزا افضل بیگ کر رہے تھے ۔یہ لوگ ریاست کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری کا مطالبہ کرتے تھے۔کچھ ہندوستا ن کے اندر رہتے ہوئے اور کچھ بالکل آزاد ریاست کے طور پر ایکشن کمیٹی کے دوسرے حصے کی قیادت میر واعظ کشمیرمولوی محمد فاروق نے سنبھال لی جو کہ آزاد کشمیر چلے جانے والے شیخ عبداللہ کے بڑے مخالف مولوی یوسف شاہ کے بھتیجے تھے وہ ریاست کو پاکستان سے الحاق کے حامی تھے ۔موئے مقدس کے واقع نے کشمیر میں ایک دفعہ پھر بیداری پیدا کردی اور ہندوستان ایک بار پھر اس معاملہ پر غور کرنے پر مجبور ہو گیا ۔ واقعہ کے فوری اثرات یہ ہوئے کہ وزیراعلیٰ شمس الدین کی جگہ جی ایم صادق کو وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا اور شیخ عبداللہ کو رہا کر دیا گیا۔