مکہ معظمہ

’’مکہ قدیم زمانوں کے بعض محققوں کے نزدیک بابلی یا کلدانی لفظ ہے۔ جس کے اصلی معنی ’’گھر‘‘ کے ہیں۔ اس سے دو حقیقتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ آباد ی اس وقت قائم ہوئی جب بابل وکلدان کے قافلے اس سے گذرتے تھے،اور یہ اس کی ابراہیمی نسبت کی ایک اور لغوی دلیل ہے۔ دوسری یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شہر کی آبادی اسی گھر کے تعلق سے وجود میں آئی ۔مکہ کا نام حضرت دائود علیہ السلام کی زبور میں سب سے پہلے نظر آتا ہے۔ قدیم شاہی زبان میں’ بکَّ‘کے معنی آباد یا شہر کے ہیں ۔جیسا کہ آج بھی شام کے ایک نہایت قدیم شہر کا نام’’بعلبک ‘‘ہے معنی بعل کا شہر (بعل دیوتا کا نا م ہے) یہ اس آبادی کی قدامت کی دوسری لغوی شہادت ہے کہ کعبہ کی ابتدائی تعمیر کے وقت یہی نام قرآن پا ک میں آیا ہے۔ کعبہ کے لغوی معنی ’’چوکھونٹے‘‘ کے ہیں۔ یہ گھر چوکھونٹا (چورس ) بناتھااور اب بھی اس طرح ہے ۔ اس لیے ’’کعبہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا‘‘۔ (سیرت النبی )اس شہر مقدس کی حرمت وتقدس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث مبارکہ میں ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر درج ذیل احکام ارشادفرمائے۔:’’اب ہجرت نہیں مگرجہاد اورخلوص نیت (باقی ہیں) اور جب تمہیں جہاد کے یے بلایا جائے تو نکلو اور فرمایا : فتح کے دن یعنی فتح مکہ کے روز ، بے شک یہ شہر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس روز حرمت والا بنایا ، جس روز آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا پس یہ شہر اللہ تعالیٰ کی عطاء کی گئی۔ حرمت کی وجہ سے قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے، اور یقینا اس میں مجھ سے قبل کسی کے لئے جنگ حلال نہ ہوئی ، اور میرے لیے بھی د ن کی ایک گھڑی ہی حلال ہوئی۔ پس یہ اللہ کی عطاء کی گئی حرمت کی بناپر قیامت تک کے لیے حرمت والا ہے۔ اس کا کانٹا بھی نہ کاٹا جائے اور نہ اس کے شکار کو ڈرایا جائے۔ اللہ نہ اس پر گری ہوئی کسی چیز کوکوئی اٹھا ئے۔ سوائے اس شخص کے جو اس کا علان کرے نہ ہی اسکی گھاس کاٹی جائے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔یا رسول اللہ سوائے اذخر (ایک گھاس) کے کیونکہ یہ لوہاروں کی بھٹیوں کے لیے ہے،اور ان کے گھر وں کے لیے استعمال ہوتی ہے(یعنی آپ اس گھا س کے کاٹنے کی اجازت مرحمت فرمادیں۔ کیونکہ اس میں باسیانِ شہر کی سہولت ہے)۔آپ نے فرمایا : ہاں سوائے اذخر کے ۔ (مسلم شریف )

ای پیپر دی نیشن