کراچی (وقائع نگار ) سندھ کے پارلیمانی سکریٹری برائے بلدیات سلیم بلوچ نے کہا ہے کہ2001ء کا پارلیمانی نظام اگر اتنا اچھا تھا تو اسے خیبر پختونخوا میں کیوں نہیں نافذ کیا گیا،آئین کے تحت جواختیارات بلدیاتی نمائندوں کے پاس ہوناچاہئیں وہ بلدیاتی نمائندوں اور ان کے اداروں کے پاس موجودہیں۔انہوں نے یہ بات پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس کے دوران محکمہ بلدیات سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہی۔وقفہ سوالات کے دوران سندھ کے بلدیاتی نظام پر پارلیمانی سکریٹری اور اپوزیشن ارکان کے درمیان کافی گرما گرمی بھی ہوئی جس سے ایوان کا ماحول کشیدہ ہوگیا۔ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ 2002 کے بلدیاتی نظام کو ناکام کہنا غیر آئینی ہے ,پیپلزپارٹی کی فریال تالپور ناصر شاہ زمانے میں ناظم رہے ہیں اورپیپلزپارٹی خود نعمت اللہ خان کی تعریف کرتی رہی ہے۔ خواجہ اظہار نے سوال کیا کہ اگر جنرل پرویز مشرف کا یہ بلدیاتی نظام اتنا برا تھا تو پیپلزپارٹی نے اس میں حصہ کیوں لیا؟ ایم ایم اے کے رکن اسمبلی سید عبد الرشید نے کہا کہ کراچی پورا ڈوبا ہوا ہے بلدیاتی نظام کا مقصد اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہونا چاہیے مگر سندھ میںیوسی چیئرمین کے پاس کوئی اختیار نہیں۔پارلیمانی سکریٹری بلدیات سلیم بلوچ نے کہا کہ 2001 کا بلدیاتی نظام اچھا تھا تو خیبر پختونخواہ میں یہ نظام لاگو کیوں نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلی ہے کوئی کلاس روم نہیں ، اپوزیشن ارکان کو حکومت کا جواب بھی تحمل سے سننا چاہیے۔ جی ڈی اے کی نصرت سحر عباسی نے دریافت کیا کہ سندھ کا بلدیاتی نظام دنیا کے کن ترقی یافتہ ممالک سے متاثر ہوکر بنایاگیا ہے۔اس موقع پرنصرت سحر عباسی اور وزیر پارلیمانی امور کے درمیان نوک جھونک بھی شروع ہوگئی اور وزیر پارلیمانی امور نے کہا کہ میڈم ڈپٹی اسپیکر یہ آپکے اختیار کو چیلنج کررہی ہیں۔مکیش کمار کے ان ریمارکس پر نصرت سحر عباسی چراغ پا ہوگئیں اور انہوں نے کہا کہ کسی کو حق نہیں کہ مجھ سے سوال کرنے کا حق چھینے۔ وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن ارکان اور پارلیمانی سکریٹری بلدیات کے درمیان کراچی کے عظیم تر منصوبہ آب کے فور کے حوالے سے بھی گرما گرم بحث ہوئی۔خرم شیر زمان نے کہا کہ یہ پیپلزپارٹی کی نالائقی کا ثبوت ہے۔وقفہ سوالات پر پارلیمانی سیکریٹری کے مبہم غیر اور غیر تسلی بخش جوابات پراپوزیشن ارکان کی جانب سے احتجاج بھی کہا گیا۔