کلبھوشن یادیو کیس۔افواہوں کا زور،حقائق کیا ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
ان دنوں بھارتی جاسوس کلبھوشن کے کیس پر حکومت اور اپوزیشن میں میچ جاری ہے۔اپوزیشن کی جماعتیں حقیقت حال سے باخبر ہونے کے باوجود محاورہ کے مطابق پانی میں مدھانی مارے ہوئے ہیں جبکہ حکومتی زعماء بھی کھل کر اصل صورت سے آگاہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ ملکی سلامتی کے متعلق کوئی بھی فیصلہ افواج پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر ممکن نہیں۔پاکستان کی کوئی بھی سیاسی حکومت کلبھوشن جیسے معاملہ پر کوئی ایڈونچر برداشت نہیں کر سکتی۔کلبھوشن کو پاکستان کی بہادر مسلح افواج نے گرفتار کیا۔اسکی تفتیش کے تمام مراحل فوج کی زیر نگرانی سرانجام پائے۔پاکستانی فوج عام ممالک کی افواج سے مختلف ہے۔اسکی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے ہر سطح کے افسران نے جانوں کی قربانی پیش کر رکھی ہے۔ان میں سے کئی شھادتیں ان واقعات میں بھی ہوئیں جنکی منصوبہ بندی کلبھوشن گروپ نے کی تھی۔اس وقت افواج اور حکومت ایک پیج پر ہیں۔کوی ایسا فیصلہ ممکن نہیں جو ملکی سلامتی یا عوامی امنگوں کے خلاف ہو۔حکومت پاکستان نے عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل کر کے بھارت کے ہاتھ باندھ دیئے ہیں اور ہر فورم پر بھارت کو لاجواب کر دیا ہے۔موجودہ صورتحال پر گفتگو کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کلبھوشن یادیو کیس کا جائزہ لیا جائے۔تاکہ پاکستانی افواج کے ہاتھوں اس جاسوس کی گرفتاری اور کے کیس کے تمام حقائق قوم کے سامنے رکھے جا سکیں۔
کلبھوشن یادیو بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ(را)کا جاسوس تھا اور مبارک حسین پٹیل کے جعلی نام سے کام کرتا تھا۔اس کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کی وارداتوں کے ملوث ہونے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا۔پاکستانی افواج کے ماتحت کام کرنے والے تمام اداروں نے مکمل چھان بین کے بعد اور ٹھوس ثبوت حاصل کرنے کے بعد اس کو گرفتار کیا۔یہ 3 مارچ 2016 کی بات ہے۔25 مارچ 2016 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا جس میں قوم کو یہ بتایا گیا کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا ایک حاضر سروس آفیسر ہے اور مبارک حسین پٹیل کے جعلی نام سے را کے لیے کام کرتا ہے۔ جب کہ اسی دن بھارت کی جانب سے بیان جاری کیا گیا اس میں کئی متضاد باتیں ایک ساتھ کی گئیں۔ایک طرف تو کہا گیا یہ بھارتی جاسوس نہیں ہے۔دوسری طرف یہ بھی اسکو بھارتی شہری مانا گیا۔اور پھر یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ وہ بھارتی نیوی کا سابق فوجی افسر ہے جب کہ پاک فوج کے تحقیقاتی اداروں کے سامنے وہ تمام دستاویزی ثبوت موجود تھے جن سے یہ بات ثابت ہوتی تھی کہ کلبھوشن بھارتی نیوی کا حاضر سروس اہلکار ہے۔12 اپریل 2016 کو پاکستان میں کلبھوشن یادیو کے خلاف کوئٹہ کے محکمہ انسداد دہشت گردی میں پہلا مقدمہ درج ہوا۔2 مئی 2016 کو بھارتی جاسوس کے خلاف ابتدائی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔کیونکہ یہ بھارتی جاسوس غیر قانونی طور پر ایران کی سرحد عبور کرتے ہوئے بلوچستان میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا اس لئے حکومت پاکستان نے حکومت ایران کو اس حوالے سے ایک خط تحریر کیا کہ ہماری تحقیقات کے مطابق بھارتی جاسوس ایران کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے منصوبے بناتا رہا۔حکومت پاکستان کے خط کے جواب میں 16 جون 2016 کو حکومت ایران نے پاکستان کے خط کا جواب دیا تاہم حکومت ایران کا جواب ذرائع ابلاغ کو جاری نہیں کیا گیا۔نہ ہی اس کی تفصیلات سامنے آ سکیں۔جوں جوں تحقیقات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا توں توں ہوش ربا حقائق سامنے آتے گئے۔پاک فوج کے تحقیقاتی ادارے سویلین حکومت کے ساتھ مل کر ان تحقیقات کی تصدیق کرتے رہے۔6 جنوری 2017 کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب محترمہ ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو بھارتی جاسوس سے تحقیقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات پر مبنی تحقیقی رپورٹ کا خلاصہ پیش کیا۔جس کے ساتھ ضروری دستاویزی ثبوت لف کیے گئے۔دوسری طرف دہشتگردی کی خصوصی دفعات کے تحت قائم فوجی عدالت میں اس کا مقدمہ زیر سماعت رہا۔تمام دستاویزی ثبوت عدالت کے سامنے پیش کیے گئے۔کلبھوشن یادیو نے عدالت کے سامنے اپنے اعترافی بیانات میں موجود مندرجات کے ہر لفظ کی تصدیق کی ۔اس نے عدالت کو بتایا پاکستان کے فوجی تحقیقاتی اداروں نے اس کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کیا اور میں نے تمام معلومات اپنی رضامندی سے ان کو فراہم کیں۔بھارتی جاسوس نے اپنے اعترافی بیان میں تفصیل کے ساتھ دہشت گردی کی ان کاروائیوں کا ذکر کیا جن کی منصوبہ بندی میں وہ ملوث رہا ہے۔10 اپریل 2017 کو کلبھوشن یادیو کا کورٹ مارشل کیا گیا۔اور فوجی عدالت نے اسے جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی۔جبکہ دوسری طرف بھارت نے سزا کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔حکومت پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے فیصلے سے سفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئے تمام دنیا کو آگاہ کیا۔اور دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہا کہ بھارت پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہے۔بھارت نے بین الاقوامی سطح پر ایک مہم کے ذریعے اس سزا کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی مؤثر سفارتکاری کے ذریعے یہ کوشش ناکام ہوگئی اور پوری دنیا کے سامنے بھارت کا مکرو چہرہ بے نقاب کر دیا گیا۔
بھارت نے اپنی کوششوں میں ناکامی اور ہر طرف سے منہ کی کھانے کے بعد 8 مئی 2017 کو پاکستانی عدالت کے فیصلے کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور کلبھوشن یادیو کیس میں ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔18 مئی 2017 کو کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو ہدایت کی کہ وہ اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک سزائے موت پر عمل درآمد روک دے۔ایک طرف عالمی عدالت انصاف میں اس کیس کی سماعت شروع ہوئی۔دوسری طرف کلبوشن کے اعترافات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ کیس کی تحقیقات کے دوران نئے انکشافات سامنے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔22جون 2017 کو کلبھوشن یادیو کا ایک دوسرا اعترافی بیان جاری کیا گیا۔جس میں اس نے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی،اور بلوچ ریپبلکن آرمی کے ساتھ مل کر بلوچستان میں تخریب کار سرگرمیاں کرنے کا اعتراف کیا۔اور کئی ایسے منصوبوں کی طرف اشارہ بھی کیا جو ابھی تکمیل کے مراحل میں تھے۔اسی دوران بھارتی جاسوس نے آرمی چیف کے پاس رحم کی بھی اپیل دائر کی۔13 ستمبر 2017 کو بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں تحریری درخواست دائر کی جس میں یہ کہا گیا کہ بھارتی جاسوس تک بھارت کو قونصلر سطح کی رسائی دی جائے۔10نومبر 2017 پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کلبھوشن کی اہلیہ سے ملاقات کرانے کی پیشکش جاری کی۔13 دسمبر 2017 پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اپنا تحریری جواب جمع کروایا۔جس میں حکومت پاکستان نے یہ موقف اختیار کیا کہ جاسوسی کارروائیوں پر ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔لہذا کلبھوشن کو دی گئی سزا عالمی قانون کے عین مطابق ہے۔حکومت پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 25 دسمبر 2017 کو بھارتی جاسوس کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کروائی۔اس ملاقات کے دوران سکیورٹی انتظامات کا مکمل خیال رکھا گیا۔6 جنوری 2018 کو بھارتی خبروں کی ویب سائٹ پر ایک آرٹیکل شائع کیا گیا جس میں یہ بتایا گیا کہ کلبھوشن یادیو را کا ملازم تھا۔اور پاکستان میں ایجنٹس کے ذریعے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔کلبھوشن یادیو سے تحقیقات کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ کئی دیگر بھارتی فوجی افسران بھی پاکستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔6 فروری 2018 کو حکومت پاکستان نے حسب ضابطہ بھارتی حکومت سے ان افسران تک رسائی مانگی لیکن بھارتی حکومت نے اس حوالے سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا۔18 فروری 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کے مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا جس میں بھارت نے عالمی عدالت سے درخواست کی کہ کلبھوشن کو دی جانے والی سزا معطل کی جائے۔اور بھارتی جاسوس کو رہا کیا جائے۔عالمی عدالت انصاف میں جاری کیس کے سماعت کے دوران پاکستانی وکیل خاور قریشی نے کلبھوشن کے پاسپورٹ کے متعلق برطانوی ادارے کی مصدقہ رپورٹ پیش کی۔جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بھارتی جاسوس ایک سے زائد پاسپورٹ رکھتا تھا۔21 فروری 2019 کو عالمی عدالت انصاف میں دائر مقدمے کی سماعت کے دوران بھارت اپنے اس مطالبہ سے دستبردار ہوگیا کہ کلبھوشن کو رہا کر دیا جائے۔4 جولائی 2019 کو عالمی عدالت انصاف نے اپنی پریس ریلیز میں مقدمے کا فیصلہ سنانے کے لیے 17 جولائی 2019 کا دن مقرر کیا۔مقررہ تاریخ پر عالمی عدالت انصاف نے اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایک طرف تو بھارت کی جانب سے سزائے موت مطلقاً ختم کر دینے کی استدعا مسترد کردی دوسرا بھارت کیونکہ پہلے ہی کلبھوشن کی رہائی کے مطالبے سے دست بردار ہو چکا تھااس لئے بھارت کی جانب سے قائم کردہ مقدمہ بے بنیاد ثابت ہوگیا۔البتہ عالمی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو حکم دیا کہ وہ بھارتی جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی کرے اور انہیں قونصلر تک رسائی دے۔8 جولائی 2020 کو حکومت کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس کو قونصلر تک رسائی دینے اور اس کے والد سے ملاقات کرانے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے اپنی ہفتہ وار بریفننگ میں بتایا کیا کہ حکومت پاکستان نے بھارتی حکومت کو اس حوالے سے مراسلہ بھجوا دیا ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل احمد عرفان کے مطابق پاکستان پہلے بھی کلبھوشن یادیو کی اہل خانہ سے ملاقات کروا چکا ہے۔انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر مکمل عمل درآمد کرنے کے لئے تیار ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے حکومت پاکستان پہلے ہی 28 مئی 2020 کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس ریویو اینڈ ری کنسٹڈریشن آرڈیننس 2020 جاری کر چکی ہے۔اس آرڈیننس کے تحت ایک درخواست کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں نظرثانی اور دوبارہ غور کی اپیل دائر کی جاسکتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق نظرثانی درخواست کے لئے 60 دن کا وقت ہے جس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جانی چاہیے۔یہ درخواست کلبوشن خود یا اس کا کوئی قانونی نمائندہ یا انڈین ہائی کمشنر دائر کر سکتے ہیں۔ذرائع کے مطابق 17 جون کو کلبھوشن یادیو کو اپیل دائر کرنے کے لیے بلایا گیا لیکن اس نے یہ اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ رحم کی اپیل پر ہی اصرار کرے گا۔
عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے کلبھوشن کو قونصلر رسائی دینے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ میں مکمل انتظامات کئے گئے۔بھارتی قونصلر کی طرف سے اعتراض کیا گیا تھا کہ ان کی گفتگو کی آڈیو ویڈیو ریکارڈنگ نہ کی جائے۔پاکستان نے ان کی یہ بات بھی تسلیم کر لی۔لیکن اس کے باوجود انہوں نے کلبھوشن سے بات چیت کرنے سے اجتناب کیا۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق انڈین سفارتکاروں نے کلبھوشن تک رسائی کے بجائے راہ فرار اختیار کی۔اس معاملہ میں بھارت کی بدنیتی واضح ہوگئی ہے کہ اس کے حکومتی عہدیدار چاہتے ہی نہیں تھے کہ یہ قونصلر سے بات چیت یا اس کا سامنا کریں۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بھارتی سفارتکاروں کی خواہش پر ملاقات کے دوران شیشے پر بھی اعتراض کیا تھا وہ بھی ان کے سامنے سے ہٹا دیا گیا اس کے باوجود بھارتی جاسوس اپنے قونصلرز کو پکارتا رہا لیکن انہوں نے اس کی ایک بات نہ سنی۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق بھی اسی نوعیت کی بات کی گئی۔پاکستان کی زیرحراست انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو اپنے ملک کے سفارت کاروں سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن وہ بات چیت کیے بغیر ہی بھاگ گئے۔پاکستانی وزیر خارجہ کے مطابق اگر انہوں نے ملاقات نہیں کرنی تھی تو عالمی عدالت انصاف سے کلبھوشن تک رسائی کیوں مانگی تھی؟
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ بھارتی جاسوس کے معاملے پر ملک بھر میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ زور پر ہے۔اپوزیشن حکومت پر تنقید میں مصروف ہے کہ وہ بھارتی جاسوس کو فرار کرانے میں دلچسپی رکھتی ہے جبکہ کچھ اطراف سے یہ بات بھی کی جا رہی ہے اس کو قونصلر تک رسائی دے کر اس کیلئے سہولت کار جیساکام کیا جا رہا ہے۔بھارتی جاسوس کے معاملے پر اعتراضات کی دھول اڑائی گئی ہے یوں قومی سلامتی کا یہ مسئلہ متنازع بنا دیا گیا ہے۔
ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ جب سے یہ معاملہ چلا ہے کلبوشن کے مسئلے پر پاکستان کی قومی سلامتی کے ادارے برابر آگاہ ہیں پوری پاکستانی عوام اس حساس مسئلے پرخبردارہے اور ہر قسم کی صورت حال پر پوری قوم کی نظر ہے۔دستیاب معلومات کے مطابق حکومت کے پاس اس طرح کا کوئی آپشن ہی موجود نہیں کہ وہ کلبوشن کو رہا کرے یا فرار کرا سکے۔اس کے لیے تمام قانونی راستے بند ہو چکے ہیں۔اگر فوجی عدالت کا فیصلہ پڑھا جائے اور اس میں موجود دستاویزی ثبوتوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے اس بھارتی جاسوس کی رہائی کا کوئی امکان نہیں۔تاہم بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔قوم کو خاطر جمع رکھنا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے تمام ادارے پوری طرح چوکس ہیں اور وہ سلامتی کے معاملات پر کسی نوعیت کا سمجھوتا نہیں کریں گے۔ہمیں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کے تمام رہنما محب وطن ہیں۔ان میں سے کوئی سیاستدان بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتا جس سے پاکستان کی سلامتی پر کوئی آنچ آئے۔لہذا تحریک انصاف کی حکومت ہو یا کسی اور جماعت کی پاکستان کی سلامتی کے خلاف کسی بھی قدم کی توقع نہیں کی جاسکتی۔امید رکھتے ہیں کلبھوشن یادیو جس کے ہاتھ بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔حکومت پاکستان اور مسلح افواج اس معاملہ کی سنگینی سے پوری طرح آگاہ ہیں۔وہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے دہشت گردی کی وارداتوں میں شہید ہونے والی روحوں کو تکلیف پہنچے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
عالمی عدالت انصاف میں سابق اٹارنی جنرل انور منصور، پاکستانی وکیل خاور قریشی اور دفتر خارجہ کے ترجمان کیس پرہونے والی کارروائی کے دوران موجود ہیں

ای پیپر دی نیشن