گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی بطور چانسلر خدمات

 ایک مشہور کہاوت ہے کہ قلم تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ جو قومیں اپنی نوجوان نسل کی تعلیم، تربیت پہ توجہ دیتی ہیں وہ ترقی کرتی ہیں۔گورنر پنجاب کا صوبہ پنجاب کی سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کے  چانسلر ہونے کا کردار بہت اہم ہے۔اس حوالے سے چودھری محمد سرور میرٹ پہ مبنی ایسا سسٹم بنانے پہ یقین رکھتے ہیں جہاں لوگوں کواپنے جائز کاموں کے لیے دفتروں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ اس لیے انہوں نے  بیوروکریسی کو  واضح ہدایات دی ہیں کہ یونیورسٹیوں کی فائلیں بلاوجہ نہ روکی  جائیں اور انہیں بلا تاخیر نمٹایا جائے۔ ایک اور اہم اقدام یہ تھا کہ  یونیوسٹیوں میں  وائس چانسلرز،جسٹرار، کنٹرولر امتحانات سمیت اہم پوسٹوں پہ عارضی تعیناتیاں کی مگر میرٹ پہ اہل لوگوں کی مستقل تعیناتیاں کی گئیں۔ ماضی میں وائس چانسلرز کی سیاسی بنیادوں پہ تعیناتیاں کی جاتی رہیں، لیکن چودھری محمد سرور اس بات پہ یقین رکھتے ہیں کہ سیاسی مداخلت سے ادارے بنتے نہیں بلکہ تباہ ہوتے ہیں۔ وہ ادارے  بنانے پہ   یقین رکھتے ہیں۔ ادارے اس وقت بنتے ہیں جب لوگوں کواس بات کا یقین ہو کہ ان کا کام سفارش یا تعلق کی بنا پر نہیں بلکہ میرٹ پہ ہو گا۔جب لوگوں کے جائز کام  میرٹ پہ نہیں ہوتے تو وہ غیر قانونی راستے اپناتے ہیں۔ اگر کوئی اعلیٰ تعلیم کا ادارہ  قانونی تقاضے پورے کرتا ہے تو اسے  یونیورسٹی کا چارٹر دینے  کے عمل میں سر خ فیتہ کی رکاوٹیں نہیں ڈالنی چاہئیں۔ بطور چانسلر انہوں نے نہ صرف  وائس چانسلر کی تعیناتیاں میرٹ پہ کیں بلکہ انہیں مستقل بھی کیا۔ اس اقدام سے یونیورسٹیاں بہترپرفارم کر رہی ہیں۔پاکستان کی یونیورسٹیاں عالمی رینکنگ میں بہتر پوزیشن پہ آ رہی ہیں۔حال ہی میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی  اور پنجاب ہائر ایجوکیشن  کمیشن کی سالانہ رپورٹ بھی پیش کی۔ نجی شعبے  کے 8 ہائرایجوکیشن اداروں  کے چارٹر کے کیسز کی کارروائی مکمل کر لی گئی ہے اور  صوبہ پنجاب میں 15 نئی  سرکاری  یونیورسٹیوں کے قیام کے لئے کام کا آغاز کر دیا۔پنجاب حکومت ہرضلع میں یونیورسٹی بنانے کی پالیسی پہ گامزن ہے لیکن اس حوالے سے گورنر پنجاب کی واضح ہدایات ہیں کہ معیار تعلیم پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔کسی بھی اعلیٰ تعلیم کے ادارے کو  یونیورسٹی کا چارٹر دینے سے پہلے اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیا وہ قواعد و ضوابط پہ پورا  اترتا ہے ۔ان کا ویژن ہے کہ لمز اور آغا  خان کے طرز پہ یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔  یونیورسٹی آف ہوم اکنامکس لاہور، گورنمنٹ صادق کالج ویمن یونیورسٹی بہاولپور اور یونیورسٹی آف چکوال میں سمارٹ کلاس  رومز بنانے پر بھی کام شروع ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے پنجا ب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے فنڈز جاری کر دئیے ہیں۔ سمارٹ کلاس رومز  سے طلبہ کو ماڈرن ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ساتھ تعلیم دی جائے گی۔ چودھری محمد سرور  ایک  وسیع سوچ رکھتے ہیں۔ بطور چانسلر بھی ان کے یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم بہتر کرنے کے لیے متعدداقدامات کے ساتھ ان یونیورسٹیوں کا غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کرنا بھی شامل ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں کوئی بھی یونیورسٹی  آئسولیشن  میں  کام نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تعلیم او ر ریسرچ کے شعبوں میں اشتراک کیاجائے۔ اس طرح تعلیم کے شعبے میں ترقی کی جا سکتی ہے۔کچھ عرصہ قبل  انہوں نے امریکہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے کیلی فورنیاکی ڈیوس یونیورسٹی اور  زرعی  یونیورسٹی فیصل آباد کے مابین مفاہمتی یاداشت  (ایم او یو) پہ دستخط  کیے۔ اس  ایم او یو کے مطابق  دونوں یونیورسٹیاں زراعت کے شعبے میں  ریسرچ،  معیاری بیج کی تیاری اور پیداواری اضافے کے لیے مل کر کام کریں گی۔ایک اچھا لیڈر وہ ہوتا ہے جو ایک ٹیم بنا کر نہ صرف اسے متحرک کرتا ہے بلکہ ایک بڑے مقصد کی طرف اس کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ کورونا وبا کے دوران یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کو متحرک کر کے ٹیلی میڈیسن سنٹر کے آغا ز کا  کریڈٹ بھی گورنر پنجاب کو جاتا ہے جس کا نیٹ ورک اب  پنجاب میں 33 سنٹرز تک پھیل چکا ہے اور  اسی نوعیت کا  ایک ایک سنٹر صوبہ گلگت بلتستان، بلوچستان اور آزاد کشمیر میں  موجود ہیں۔یہ سنٹرز کورونا وبا کے آغاز سے اب تک تقریباً  پندرہ لاکھ کالز پہ لوگوں کو رہنمائی دے چکے ہیں۔ اسی طرح کورونا وبا کے دوران مخیر حضرات کے تعاون سے گورنر ہائوس سے ضرورت مند افراد تک راشن پہنچانے کی  مثال بھی انہوں  ہی قائم کی ہے۔گورنر پنجاب ایک ہمہ جہت شخصیت کے حامل ہیں۔ وہ ملک معراج خالد جیسے دوریش سیاست دان کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ ان کو جو لوگ قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ چودھری محمد سرور بھی اندر سے ایک درویش صفت انسان ہیں اور وہ ایک کامیاب سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ پنجاب کے ہر گھر میں صاف پانی پہنچانا ان کا خواب ہے۔ اس کے لیے وہ خلوص نیت سے کام کر رہے ہیں۔وہ آب پاک اتھارٹی کے سرپرست اعلیٰ ہیں۔اس حوالے سے شروع میں انہیں لوگوں کی روایتی سست روی کی وجہ سے مشکلات بھی پیش آئی لیکن بالآخر وہ ایک ٹیم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو اب ان کے مشن میں ان کے ساتھ چل رہی ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن