1947میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو انڈین فوج کے سنئیر آفیسرز تمام انگریز تھے ۔مقامی آفیسرز میں محض چند ایک ایسے تھے جو ابھی تک بر گیڈئیر کے رینک تک ہی پہنچے تھے۔وہ تا حال فوج کی کمان سنبھالنے کے اہل نہ تھے۔لہٰذا ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کو اسوقت بشمول چیفس بہت سے برٹش آفیسرز مستعار لینے پڑے۔بھارت کا پہلا بھارتی کمانڈر انچیف جنرل بعد میں فیلڈ مارشل کے ایم کری آپا تھا ( Kodendra Madapar Cariappa)تھا جسے یکم جنوری 1949کو ترقی دیکر اس عہدے پر تعینات کیا گیا۔
کری آپا کا تعلق جنوبی ہندوستان کورگ کے علاقے سے تھا۔28جنوری 1899کو ایک کسان فیملی کے ہاں پیدا ہوا۔باپ محکمہ مال میں ملازم تھا۔ابتدائی تعلیم مقامی سکول میں حاصل کی۔اسے فوج میں جانے کا بچپن سے ہی شوق تھا۔اسوقت تک مقامی لوگوں کو فوج میں کمیشن نہیں دیا جاتا تھا۔پہلی جنگ عظیم کے بعد پہلی دفعہ ٹمپریری کمیشن کیلئے کچھ آسامیوں کا اعلان کیا گیا جن میں کری آپا بھی پیش ہوا۔اسکی ابتدائی کارکردگی اتنی اچھی تھی کہ اسے ٹمپریری طور پر فرسٹ لیفٹیننٹ کیلئے منتخب کر لیا گیا۔شروع میں تو اسے مختلف یونٹوں کے ساتھ اٹیچ کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد اسکی کارکردگی دیکھ کر اسے ایک راجپوت بٹالین کے ساتھ مستقل کر دیا گیا جو اسکی پیرنٹ یونٹ بن گئی۔اس عرصے میں اسے مشرق وسطیٰ میں بھی سروس کا موقعہ ملا لیکن ہر رینک اور ہر پوسٹ پر اس نے شاندار کارکردگی دکھائی ۔یہ پہلا بھارتی آفیسر تھا جسے لیفٹیننٹ کرنل کے رینک پر ترقی دے کر یونٹ کی کمانڈ دی گئی۔اس سے پہلے کسی بھارتی کو یونٹ کی کمانڈ نہیں ملی تھی۔بطور کمانڈر بھی کری آپا کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔لہٰذا اسے سٹاف کالج کوئٹہ تربیت کیلئے بھیجا گیا۔یہ پہلا بھارتی آفیسر تھا جسے اس تربیت کیلئے منتخب کیا گیا۔بعد میں اسے امپریل ڈیفنس کالج کیمبرلے انگلینڈ بھیجا گیا۔ 1947 میں جب برصغیر تقسیم ہوا تو کری آپا برگیڈیر تھا۔ دوسری جنگ عظیم ختم ہو چکی تھی اور کامیابی کا سہرا برٹش انڈین آرمی کے سر تھا۔اس فوج میں ہندو،مسلم اور سکھ سب شامل تھے یعنی برصغیر کے ہر کونے کے لوگ موجود تھے اور یہ سب مل کر ایک باڈی کی طرح لڑے تھے ۔یہ ایک بہترین جنگی مشین قرار دی گئی تھی۔اسے بر طانوی تاج کا ہیرا کہا جاتا تھااس لئے اکثر آفیسرز بشمول برٹش آفیسرز نہیں چاہتے تھے کہ یہ شاندار فوج تقسیم ہو۔برگیڈیر کری آپا اس تحریک میں پیش پیش تھا۔اس مقصد کیلئے کیمبرلے سٹاف کالج میں کورس کرنیوالے انڈین آفیسرز میں سے کچھ آفیسرز کنگ جارج کے پاس بھی پیش ہوئے۔ان کا نظریہ تھا کہ ملٹری اکیڈیمی اور آرمی چیف ایک ہی رہیں۔ایک پارٹی میں کری آپا قائد اعظم کے پاس بھی جا پہنچا اور اسے گزارش کی کہ فوج کی تقسیم روکی جائے۔قائد نے پوچھا:’’تم کیا کرتے ہو؟ ‘‘ کری آپا نے جواب دیا
’’ جناب میں فوج میں سینئر آفیسر ہوں‘‘ ۔قائد نے جواب دیا :’’ شاباش اپنا کام خوب محنت سے کرو‘‘ ۔اتنا کہہ کر آگے چلے گئے ۔کچھ پاکستانی آفیسرز بھی یہ تقسیم نہیں چاہتے تھے ۔جب فوج تقسیم ہو گئی تو پاکستانی جنرل محمد رضا نے زور دے کر کہا کہ دونوں ممالک کی افواج کا آپس میں رابطہ اور دوستی ضرور رہنی چاہیے۔اگر اور کوئی رابطہ ممکن نہیں تو کم از کم دونوں افواج ہر سال کھیلوں کے مقابلے ضرور کریں۔ مگر تقدیر کے کھیل بھی بڑے نرالے ہوتے ہیں ۔ان دونوں افواج کا آپس کا تعاون تو قائم نہ رہ سکا لیکن چند ماہ بعد ہی دونوں افواج ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں آگئیں۔
تقسیم کے کچھ عرصہ بعد کشمیر میں جنگ شروع ہو گئی۔ یہ جنگ دو مقامات سے شروع ہوئی۔شمالی علاقہ جات گلگت میں گلگت سکائوٹس نے بغاوت کی۔ مہاراجہ کشمیر کے بھیجے ہوئے گورنربرگیڈئیر گنسارا سنگھ کو حراست میں لیکر اور گلگت ریزیڈنسی پر آزادی کا پرچم لہرا دیا۔دوسرا حملہ قبائلی لشکر نے مظفر آباد سے شروع کیا۔ یہ لشکر بارہ مولا تک پہنچا۔ وہاں سے سری نگر محض2 سے 3گھنٹوں کی مسافت تھی۔ اس وقت تک وہاں کسی قسم کی فوج نہ تھی۔ یہ لوگ اگر آگے چلے جاتے تو سری نگر کا قبضہ محض رسمی کاروائی تھا لیکن یہ لوگ وہاں تین دنوں کیلئے رک گئے۔ وہاں قتل و غارت اور لوٹ مار شروع کر دی۔ نزدیک ہی موہارا پاور سٹیشن تھا جہاں سے سری نگر کو بجلی سپلائی ہوتی تھی۔ یہ پاور سٹیشن بھی تباہ کر دیا گیا۔ اس سے مہاراجہ اتنا گھبرایا کہ اس نے فوری ہندوستانی فوج کی مدد مانگی اور28 اکتوبر بعد دوپہر بھارتی فوج وہاں پہنچ گئی۔ وہ اپنے ٹینک اور ہوائی جہاز بھی ساتھ لائی جبکہ مجاہدین اور لشکر کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ نتیجتاً یہ پیچھے ہٹ گئے۔ اس وقت تک کری آپا لیفٹیننٹ جنرل بن چکا تھا۔ لہٰذا کشمیر میں لڑنے والی بھارتی فوج کی ویسڑن کمانڈ قائم کی گئی اور کری آپا اس فوج کا کمانڈر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ ساری جنگ اس نے لڑی تھی۔
1946میں کری آپا وزیرستان میں برگیڈکمانڈر تھاا ور لیفٹیننٹ کرنل ایوب خان اسکا ماتحت تھا۔ دونوں کے آپس میں بڑے اچھے تعلقات تھے۔ دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ یکم جنوری 1949کو کری آپا بھارتی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بن گیا اور جنوری 1951میں ایوب خان پاکستان فوج کا کمانڈر انچیف بنا۔1958میں ایوب خان مارشل لاء آف ایڈ منسٹریٹر اور پاکستان کا صدر بن گیا تو ایک دفعہ پھر دونوں میں رابطہ ہوگیا۔ 1965کی جنگ کے بعد کری آپا اپنے ٹروپس سے ملنے سرحد پر آیا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد سامنے اسے پاکستانی ٹروپس نظر آئے۔ وہ ان کی طرف چل پڑا۔ اے ڈی سی نے منع کیا کہ سامنے دشمن ہے۔ کری آپا نے جواب دیا وہ بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔ آگے آتے ہوئے ایک پاکستانی کپتان نے بلند آواز میں وارننگ دی کہ اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو گولی جسم کے پار ہوگی۔ ادھر سے اے ڈی سی نے بتایا کہ آنے والے جنرل کری آپا ہیں تو انہیں آگے آنے دیا گیا۔ معمول کیمطابق اس نے آکر ٹروپس سے انکی خیر خیریت پوچھی۔ جوانوں نے جلدی سے فوجی ڈش چائے اور پکوڑے پیش کئے جو اس نے خوشی سے کھائے۔ بعد میں پاکستان کے صدر ایوب خان نے خط لکھ کر شکریہ ادا کیا۔ اس جنگ میں کری آپا کا بیٹا کے سی کری آپا جو کہ بھارتی ائیر فورس میں فائٹر پائلٹ تھا۔ یہاں اسکا جہاز گرالیا گیا اور نوجوان کری آپاجنگی قیدی بن گیا جب ایوب خان کو پتہ چلا تو انہوں نے فون کرکے کری آپا سے پوچھا اگر آپ کہیں تو آپکے بیٹے کو چھوڑ دیا جائے۔ کری آپا نے جواب دیا کہ اب وہ میرا بیٹا نہیں بلکہ تمام جنگی قیدیوں کی طرح وہ بھی بھارت دیش کا بیٹا ہے۔ جب تمام جنگی قیدیوں کو آپ چھوڑیں گے تو تب اسے بھی چھوڑیں۔ بہرحال تمام قیدیوں کی ویلفیئر کا خیال رکھیں۔
ایوب خان کی صدارت کے دوران وہ دو دفعہ ایوب خان سے ملنے پاکستان آیا۔ اسکی شدید خواہش تھی کہ کسی طرح مسئلہ کشمیر حل ہوجائے۔1971کے سانحہ کے بعد اس نے اپنی حکومت کو مشوردہ دیا کہ بھارت مشرقی پاکستان رکھ لے اور کشمیر پاکستان کو دے دے مگر اس کی بات کسی نے قبول نہ کی۔
کری آپا نے40سال عمر کے بعد ایک نوجوان خوبصورت لڑکی سے شادی کی۔ اس سے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوئے۔ مگر کچھ عرصہ بعد بغیر طلاق علیحدگی ہوگئی۔ وہ نوجوان آٖفیسرز میں بہت مقبول تھی۔ ایک دن کسی آفیسر کے ساتھ شراب پی کر ڈرائیونگ کر رہے تھے کہ ایک ایکسیڈنٹ میں دونوں مر گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کری آپا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھارتی سفیر بھی رہے۔ 1968میں ریٹائرمنٹ کے بہت بعد انہیں فیلڈ مارشل کے رینک پر ترقی دیدی گئی۔ 1993 میں 94سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ کورگ کے علاقے میں انکا مجسمہ نصب کیا گیا جہاں تمام آرمی چیفس جا کر اسے سیلوٹ کرتے ہیں۔ یہ شخص کسی حد تک پاکستان فرینڈلی تھا اور دونوں ممالک کے باہمی اختلافات ختم کرنے کیلئے کوشاں رہا مگر کامیاب نہ ہو سکا۔