اللہ کی خوشنودی کا راز توبہ اور استفسار میں اخوت اس کو کہتے ہیں چھبے کانٹا جو کابل میں

Jul 28, 2021

تو ہندوستاں کا ہر اک پیروجواں بے تاب ہو جائے
سامراج کے لیے مسلمانوں کا اتحاد اس کے ایجنڈے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھا اور پھر بے مثل اتحاد‘ لازوال اخوت اور یادگار ہمدردی کے آگے بند باندھ  دیا گیا۔  سامراج نے مسلمانوں کی لیڈر شپ کو ہدف بنا کر انہیں آہستہ آہستہ راستے سے ہٹایا ، ایک ایک کرکے مسلم ممالک کو مفادات کے طمع دائرے سے ایسے گزارا گیا کہ پہلے اپنا ملک سب کا نعرہ  بن گیا۔ عظیم ترین سلطنت عثمانیہ کے حصہ نجرے کرائے گئے ۔ سقوط غرناطہ کا خونیں اور روح کش سانحہ رونما کرایا گیا۔ 14 اگست 1947ء کو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنی والی ریاست کو درلخت کراکے سامراج نے برطانوی راج میں مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والی ہذیمت کا بدلہ چکا دیا۔ امت مسلمہ نے سقوط غرناطہ سے سبق سکھایا اور نہ 16 دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا الم محسوس کیا۔ مستزاد  کہ مسلمان لیڈر شپ بحران‘ طوفان اور سازشوں کو بھانپنتے اور دیکھتے ہوئے  بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رہی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سامراج (تیزی سے پھیلتے دین) اسلام کو ہدف بنا کر مسلمانوں کا قافیہ تنگ کر رہا ہے اور مسلم ریاستیں سازشوں کا توڑ تلاش کرنے اور دشمنوں سے نمٹنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو بچھاڑنے اور سبقت لے جانے کی روش کا شکار ہیں۔ ہمیں بتا ہی نہیں کہ یہودونصاریٰ اپنی طاقت کے زعم میں مسلمان ریاستوں کو لڑا رہے ہیں۔ دوستی اور میٹھی محبت کی آڑ میں اسلام دشمن طاقتیں جو کھیل کھیل رہی ہیں اس کا نتیجہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ ایک طرف سامراج اپنے ہدف کی طرف کامیابی سے بڑھ رہا ہے دوسری طرف مسلمان ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما ہیں! سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اکرام چوہدری کے مطابق انہیں ہسپانیہ کے دورے کے دوران مسجد قرطبہ کی زیارت کا موقع ملا مسجد قرطبہ کی پر شکوہ عمارت اور  آسمان کو چھوتے مینار عظمت رفتہ کی یادگار ہیں۔ 150 سے زائد مینار جامع مسجد کی شان وحشمت کی گواہی دے رہے تھے۔ ہم نے پڑھا تھا کہ ایک ایک مینار کی تکمیل تین، ساڑھے تین برس میں مکمل ہوئی تھی۔
مرکزی شہر کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل تھی۔ اکرام چوہدری ایڈووکیٹ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ہوٹل جاتے ہوئے مسلمان ٹیکسی ڈرائیور سے سوال کیا کہ ھسپانیہ وہ  ریاست تھی جہاں مسلمانوں نے 600 برس حکومت کی۔ پھر مسلمان کیسے شکست کھاگئے؟  ٹیکسی ڈرائیور  کے سادہ سے جواب نے حیران کر دیا!! بولا! مسلمان آپس میں لڑتے تھے جس کا فائدہ اٹھا کر غیر مسلموں نے ان پر ، ان کی حکومت  اور ان کے ملک پر قبضہ کرلیا…!! دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے سوال کریں کہ آج کے حالات ایسے ہی نہیں ؟ آج بھی ہم میں بہت سے ایسے لیڈر ہیں جو سامراج کے مفادات کا تحفظ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے! کریمہ  بلوچ کا قتل کیا ہے؟ آپ ذرا واقعہ کو پیش منظر اور پس منظر سے دیکھیں بہت سے رازوں سے خود بخود پردہ اٹھ جائے گا ۔ہم ذرا سے اور معمولی سے مفاد کے لیے قومی مفادات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں۔ عالم اسلام میں ٹیپو سلطان کی شان وعظمت کیوں بلند ہے؟
رب کریم کو راضی کرنے اور اس کی خوشنودی کا راز توبہ اور استفسار میں پوشیدہ ہے ہم اجتماعی توبہ کرکے مالک کائنات کو راضی کریں انشاء اللہ وہ  کرونا آفت سے انسانوں کو نجات دلادے گا ہمیں انسداد کورنا ویکسئن کے ساتھ رجوع الی اللہ کی بھی ضرورت ہے۔ وہی رب ہے جو گناہوں کی دلدل سے انسانوں کو نکالتا ہے اور پھر انسانوں کی طرف سے توجہ کی پکار سنتا ہے اور جواب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے انسانوں کو بتا دیا کہ وہ تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ ہر پکارنے والے کی صدا سنتا اور جواب دیتا ہے۔ ضرورت صرف اخلاص کی ہے ہم سچے دل‘ عاجزی اور ندامت کے آنسو کیساتھ رب رحمن کو پکاریں‘ راضی کریں انشاء اللہ وہ مصیبت زدہ اور توبہ کرنے والوں کی دعائیں قبول کرے گا
ہر مصیبت سے نجات میرے رب نے دینی ہے اور جب آسمانی مصیبت  ( اورعذاب) کی بات ہو تو پھر عرش والے کو بار بار پکارنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اے اللہ ہم بے بس لاچار اور بے آسرا ہیں اپنے محبوب رسولؐ کے صدقے ہمیں اس مصیبت‘ پریشانی اور آزمائش سے باہر نکال…خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں بارش نہ ہونے اور مسلسل قحط سے پریشانی حال رعایا کے روز بروز بگڑتے حالات نے بادشاہ کو غم ناک‘ اندوھ اور الم ورنج کی دلدل میں گرا دیا۔قحط کے شکنجوں سے نکلنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی ایسے میں ہارون الرشید کو اس خاص وزیر( ان کے معلم ) نے بندریا اور شیر کا پرانا قصہ سنا کر بے چین اور بے قرار بادشاہ کو آسودگی کے پھول دے دیئے وہ کہتے ہیں ایک بندریا اپنا معصوم بچہ جنگل کے بادشاہ کے سپرد کرکے کچھ دن کے لیے کسی دوسرے مقام چلی گئی بادشاہ بندریا کے بچے کو خود پر سوار کرکے معمولات زندگی ادا کرتا رہا۔ ایک صبح اچانک ایک باز حملہ آور ہوا اور بچہ اٹھا کر آسمان کی طرف غائب ہوگیا ۔بادشاہ بے بسی اور لاچاری سے باز کو دیکھتا رہا مگر وہ کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔ چند دن بعد بندریا لوٹی اور بادشاہ  سے اپنی امانت( بچے)  واپسی کا تقاضا کیا! جنگل کے بادشاہ نے جواب دیا کہ بچے آسمان کی طرف سے آنے والی مصیبت کا شکار ہوگیا میں زمین کی مصیبت کے تحفظ کا ذمہ دار تھا۔ہارون الرشید کو بتایا گیا، سمجھایا گیا کہ جہاں پناہ بارش کا نہ ہونا اور قحط یہ آسمان کی طرف سے آنے والی مصیبتیں ہیں اس سے نجات کا علاج آسمان والے کی طرف رجوع کرنے میںہی ہے ۔ہماری علماء کرام اور مشائخ عظام سے التماس ہے کہ وہ انسانوں کی راہنمائی کے لیے خانقاہوں اور درگاہوں سے نکلیں آج انسانوں کو ان کی راہنمائی اور سرپرستی کے ضرورت ہے ۔ صدقہ وخیرات دیں، دسترخوانوں کا سلسلہ دراز کریں غریبوں کی دلجوئی کریں، بے روزگار اور مہنگائی کے مارے لوگوں کی مالی اعانت کریں

مزیدخبریں