پردیسی نوجوان مزدوروںنے اپنے اہل خانہ سے عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کیلئے سیالکوٹ سے راجن پور کیلئے روانہ ہوئے تو بد قسمت بس جب منزل کے قریب تھی کہ اچانک ایک ٹرالر سے زور دار دھماکے سے ٹکرا گئی اور آناً فاناً سب خواب بکھر گئے ، خوشیاں غموں میں بدل گئیں ، قربانی کے خوان سے سرخ ہو نے والی دھرتی عید سے قبل انسانوں کے خوان سے رنگین ہو گئی ہر طرف آہ و بکا اور چیخ و پکار میں تڑپتے جسموں کو عید کی خوشیوں میں شریک ہونے کی بجائے قبر میں اتار دیا گیا۔اس ہولناک تاریخی حادثہ میں 28مسافر مزدوروں کا تعلق راجن پور اور ایک ایک گھر کے تین سے چار حقیقی بھائیوں کی نعشیں جب گھروں کو پہنچیںتو علاقے میں کہرام بر پا ہو گیا۔ ماتم کرتی مائیں اپنے جگر گوشوں کی نعشوں سے لپٹ لپٹ کر ایسے روئیں کہ آسمان بھی روپڑا۔یہ حادثہ کوئی نیا نہیں ڈیرہ غازیخان ڈویژن میں ذرائع مواصلات مناسب و بہتر نہ ہونے کی وجہ سے متعدد بارایسے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے انگریزوں کے مراعات یافتہ سردارو وڈیرے ہر دورحکومت میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے مگر یہاں کے عوام کو مناسب ، بہتر سفری سہولیات و دیگر اشیاء زندگی فراہم نہ کر سکے ۔سڑکوںکی خرابی ایک عرصہ سے درد سر بنی ہوئی ہے پورے ملک سڑکوں کے جال، سی پیک ،اورنج ،لال ،پیلی اورکالی ٹرینیں مختلف شہروں سے گزار دی گئیں مگر ڈیرہ اسماعیل خان سے کشمور،براستہ راجن پور اکلوتی ٹوٹی پھوٹی سڑک قاتل روڈ (کا روپ دھار چکی ہے) نہ بن سکی ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق سالانہ ڈیڑھ سو سے دو سو افراد حادثات کا شکار ہو کر موت کی وادی میں چلے جا تے ہیں ۔
ستم ظریفی دیکھے بیس سال گزر جانے کے باوجود انڈس ہائی وے جو ڈی جی خان سے کشمور تک ون وے نہ بن سکی آئے روز حادثات سے قیمتی معصوم جانوں کا زیاں ہو رہا ہے۔ چار صوبوں کے سنگم پر واقع قاتل روڈ انڈس ہائی وے پنجاب ،سندھ بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کو ملانے والی روڈ ہے جس پر چاروں صوبوں کی بے ہنگم ٹریفک کا گزر ہوتا ہے جہاں پر بھاری بھر کم 22 ویلر ٹرالرز سوات، مینگورہ، پشاور، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سے آنے والی مسافر کوچز و دوسری گاڑیوں کوئٹہ، حیدر آباد، کراچی آمدورفت کی اہم گزر گاہ ہے۔ یہاں سے پاکستان کے چاروں صوبوں کا ٹریفک رواں دواں رہتا ہے دوسری جانب انڈس ہائی وے ڈی جی خان، جام پور، راجن پور، روجھان، کشمور تک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور روڈ کی انتہائی مخدوش ترین حالت ہونے کے باعث آئے روز المناک سینکڑوں حادثات رونما ہورہے ہیں اور ناگہانی قدرتی حادثات پر حکومتی نمائندگان نے وقتی طور پرماسوائے افسوس کے اور کچھ بھی نہ کیا۔
انڈس ہائی وے جو جنوبی پنجاب کے دو بڑے اضلاع اور ایک سندھ کا ضلع کشمور تک جہاں موت نے ہزارباررقص کھیلا جس سے پنجاب، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ سے تعلق رکھنے والے علاقائی لوگوں و مسافروںکی خوفناک حادثات میں اموات واقع ہوئیں اور کچھ مسافروں کے ٹوٹے پھوٹے و کچلے ہو ئے اعضاء کی گٹھڑیاں باندھ کرہسپتال سے گھر روانہ کیے گئے۔اس قاتل روڈ کے حادثات میں جاں بحق ہونے والے مسافرون کی لاشیںکبھی بلوچستان، کبھی سندھ کبھی خیبر پختونخواہ اور کبھی پنجاب میں لائی گئیں ،کئی مائیں بے اولاد ہوئیں، کئی بہنوں نے بھائیوں سے جدائی کا صدمہ برداشت کیا ،کئی ماؤں کے سہاگ اجڑ گئے اور لاکھوں کی تعداد میں اس سڑک نے بچوں کے والدین تک چھین لئے مگر آج تک ماسوائے تشفیوں اورطفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ بن سکا اورانڈس ہائی وے دو رویہ (ون وے روڈ) نہ بن سکا۔روایتی طورپر گزشتہ و پیوستہ ادوار میں صاحب اقتدار لوگوںنے کوئی خاص توجہ نہ دی جبکہ حالیہ برسراقتدار پارٹی نے بھی عملی طور پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ کیے ۔
حادثہ کی اطلاع پا کر آر پی او ڈیرہ غازیخان ، ڈی سی حافظ ذیشان ، ایم ایس ٹراما سنٹر ڈاکٹر نجیب الرحمن تھہیم و ریسکیو ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر بر وقت زخمیوں کو فوری طبی امداد اورعلاج معالجہ کی تمام تر سہولیات فراہم کیں اس موقع پر نوجوانوں کا جذبہ بھی دیدنی تھا۔ نوجوانوں نے اپنی پرائیویٹ گاڑیاں ان کے سپرد کردیںجبکہ ضلعی انتظامیہ راجن پور نے ڈپٹی کمشنر راجن پور احمر نائیک،ڈی پی او راجن پور فیصل گلزار،ایم پی ایز سردار اویس خان دریشک اور سردار فاروق امان اللہ خان دریشک نے تمام تر آپریشن ریسکیو و تدفین کی خودنگرانی کی اور تجہیز و تدفین ضلعی انتظامیہ نے خود سر انجام دی ۔سردار فاروق امان اللہ خان دریشک کی ذاتی دلچسپی پروزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی جانب سے بس حادثہ میں وفات پانے والے افراد کے 8،8لاکھ روپے جبکہ زخمی افراد کیلئے 3،3لاکھ روپے کی فوری امداد کی جبکہ ضلع راجن پور کے عوام نے سوشل میڈیا پردست بستہ وزیر اعلیٰ پنجاب کی توجہ دلانے کیلئے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا ہے کہ آپ تو وزیر اعلیٰ پنجاب ہیںمگر ڈیرہ ڈویژن کیلئے ابھی تک کوئی میگا پراجیکٹ سامنے نہیں آیا، اگر شہباز شریف لاہور میں 150 ارب کی میٹرو ٹرین، پرویز خٹک پشاور میں 130 ارب کا میٹرو بس منصوبہ بنا سکتا ہے تو آپ چالیس ارب کا ایک رمک روجھان روڈ کیوں نہیں بنوا سکتے؟ اقتدار سدا خدا کے سوا کسی کا نہیں رہتا کچھ ایسا کر جائیں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں۔آپ اتنا ضرور کر جائیں کہ آج کے بعد کوئی وسیب کا مزدور عید پر گھر لوٹنے کا قصد تو کرے تو ہنسی خوشی اپنے والدین ،بیو ی بچوں اور بہن بھائیوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہوسکے۔