پنجاب ، گورنر راج کی سمری پر کام شروع کردیا ، وزیرداخلہ : جب چاہیں وفاقی حکومت گرادیں ، پی ٹی آئی 

اسلام آباد+لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+خصوصی نامہ نگار) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے وزارت داخلہ نے سمری تیار کر لی‘ میں نے اس پر کام شروع کر دیا ہے۔ وفاقی حکومت ہر صوبے میں اپنے بڑے حکومتی سائز کے ساتھ موجود ہے۔ اگر پنجاب میں میرا داخلہ بند کیا گیا تو یہی بات وہاں گورنر راج لگانے کا کافی جواز بن جائے گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو پولیس لائن اسلام آباد میں ایف سی کے پہلے انٹی رائٹ یونٹ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ 63 اے کے حوالے سے کل کے فیصلے کے تحت تو پہلے فیصلے میں نااہل قرار دیئے گئے 25 ارکان پنجاب اسمبلی بحال ہوگئے ہیں جن کا موقف تھا کہ ان کے حمزہ شہباز کو وزارت اعلیٰ کے الیکشن میں ووٹ دینے سے پہلے پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا لیکن سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کے خط اور پارٹی ہیڈ عمران خان کے خط کی بنیاد پر 25 ارکان نہ صرف نا اہل ہو گئے بلکہ ان کا حمزہ شہباز کو دیا گیا ووٹ بھی شمار نہ کیا گیا لیکن کل کے فیصلے میں پارٹی ہیڈ چوہدری شجاعت حسین کے خط کو مسترد کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ آئین ری رائٹ نہیں کرسکتی۔ آئین سازی یا اس میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میں بطور وکیل کل سے سوشل میڈیا پر زیر گردش جسٹس فائز عیسٰی کے خط کو دیکھ کر بہت زیادہ پریشان ہوں اور اس پر سوشل میڈیا پر جو بحث ہوئی وہ افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ ہر معاشرے کی بنیادی ضروریات ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ حمزہ شہباز کو ان کے پہلے الیکشن میں 197 ووٹ ملے اور آئین میں ہے اگر کوئی ووٹ دے گا تو ووٹ گنا جائے گا۔ چیف جسٹس نے بھی کہا لیکن جب فیصلہ آیا تو اس میں معاملہ الٹ تھا۔ ان کے 25 ووٹ مائنس کردیئے  گئے اور حمزہ شہباز کو رن آف الیکشن میں رکھا گیا جس سے سیاسی صورت حال خراب کردی گئی۔ حالات سیٹل نہیں ہوئے، ڈالر چھلانگیں لگا رہا ہے۔ پھر پوچھا جاتا ہے معیشت کا اتنا برا حال کیوں ہے۔ مہنگائی کیوں بڑھ رہی، لیکن جب سیاسی عدم استحکام ہو گا تو سٹاک مارکیٹ گرے گی اور ڈالر چھلانگیں مارے گا۔ پھر اس سے مہنگائی ہی آنی ہے۔  عدلیہ ہر ملک کی بنیادی ضرورت ہے، کوئی معاشرہ بھی عدلیہ کے بغیر مہذب نہیں ہوسکتا۔ آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ ہم سب کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق علمائے کرام کا ایک وفد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے افعانستان گیا ہے۔ یہ علمائے کرام حکومتی سطح پر نہیں بلکہ ذاتی سطح پر گئے ہیں۔ اگر کوئی بھی امن کیلئے اپنی طرف سے کوشش کرتا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ ان کا اس کوشش میں ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کے اختیار کم نہیں ہو سکتے۔ ہم چاہتے ہیں ہماری عدلیہ کی تکریم بڑھے۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا عمران خان کے خلاف ایسی ایسی کرپشن کے شواہد سامنے آرہے ہیں کہ وہ منہ نہیں دکھا سکیں گے۔ وہ توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ میں 50 ارب روپے کے فراڈ کا تو اب تک جواب نہیں دے سکے جس میں خود عمران خان اور ان کی اہلیہ ٹرسٹی بنے ہوئے ہیں۔ اس کا جیسے ہی چالان بنے گا عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چئیرمین نیب ایک غیر جانبدار شخصیت ہیں۔ وہ اپنا آزادانہ کام کرتے ہیں۔ ہمارا مقصد کسی کے خلاف مقدمے بنانا نہیں ہے۔ تاہم فرح گوگی کا معاملہ پہلے ہی نیب میں زیر تفتیش ہے۔ ہمارا یہ بھی کام نہیں کہ روز پریس کانفرنس کریں۔ یہی وہ کمی ہے جس سے سابق حکومت مسائل چھوڑ کر گئی ہے۔ اس وقت وہ سب کچھ سلیقے اور سمجھداری سے ہو رہا ہے جو پہلی حکومت پریس کانفرنسوں کا شور ڈال کر کرتی تھی۔ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ عدم اعتماد کے بعد ہم الیکشن میں جانا چاہتے تھے لیکن اس وقت محب وطن حلقوں نے کہا کہ ملکی معیشت خطرناک حالت میں ہے پہلے اس طرف توجہ دی جائے۔ چنانچہ ہم نے اپنے ملک کو سنبھالا۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمران خان نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو 25 مئی والی صورتحال کا ہی انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔ پرامن احتجاج ملک کے ہر طبقے کا آئینی حق ہے لیکن پرتشدد اور یلغار کرنے کے انداز کے احتجاج کی کسی معاشرے میں اجازت نہیں ہوتی۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ کرپشن کے مقدمات درج کرنے کا فیصلہ چیئرمین نیب کریں گے‘ اتحادی جماعتوں کے مشورے سے حکو مت سنبھالی اب  ملک دیوالیہ پن کے خطرے سے نکل چکا ہے۔ نواز شریف  وطن واپس آئیں گے اور انتخابی مہم چلائیں گے۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا مجھے خوشی ہے کہ ایف سی نے انٹی رائٹ فورس بنائی ہے۔ ایف سی صوبوں کی پولیس اور سرحدوں تک امن و امان کے قیام کے لئے خدمات انجام دے رہی ہے۔ ایف سی کا راشن الائونس 92 روپے روزانہ سے بڑھا کر 200 روپے کردیاگیا جس سے حکومت ایک ارب روپے کا فنانشل بوجھ خود اٹھائے گی۔ ایف سی کے معاملات کار بہتر سے بہتر بنائے جا رہے ہیں۔ اس سال ایف سی نے انٹی رائٹ یونٹ کے 400 جوانوں کوٹریننگ دی۔ اگلے سال دو ہزار جوانوں کو ٹریننگ دے دی جائے گی جس کے لئے ایف سی کیلئے 667 ملین روپے مختص کئے گئے اور اس میں سے 333 ملین روپے کی گرانٹ دے دی گئی۔ وزیر داخلہ نے کمانڈنٹ ایف سی صلاح الدین محسود کو ہدایت کی کہ ایف سی میں ویمن فورس بھی بھرتی کی جائے تاکہ ملک کی 50 فیصد آبادی کوبھی نمائندگی مل سکے۔ اگر کمانڈنٹ مجھے تین دن میں سمری بھیجیں گے تو چوتھے روز یہ سمری وزارت داخلہ منظور کردے گی۔ ایف سی کی تنخواہ یکم جولائی سے خیبر پی کے پولیس کے برابر کی جا چکی ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ایف سی کی انٹی رائٹ یونٹ سالانہ پانچ ہزار افسروں اور جوانوں کی تربیت کریگی‘ سابق حکومت نے اسلام آباد پولیس کے شہداء کے اہلخانہ کے فنڈز بغیر کسی ٹھوس وجہ کے روکے جب میں یہ معاملہ وزیر اعظم شہباز شریف کے سامنے لے کر گیا تو پہلی نظر میں ہی وزیراعظم شہباز شریف نے شہدا کے اہلخانہ کے ایک ارب 22 لاکھ روپے کے واجبات ادا کردیئے، اسلام آباد پولیس جولائی 2022 کی نئی اضافہ شدہ تنخواہ وصول کرینگے، ایف سی راشن الائونس دیگر سول آرمڈ فورسز کے مساوی کر دیا، ایف سی کی اینٹی رائیٹ تربیت کے لئے 667 ملین کے فنڈز مرحلہ وار فراہم کیے جارہے ہیں جس میں سے 333 ملین روپے ادا کر دئے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بات بدھ کو پولیس لائن اسلام آباد میں ایف سی  کے انٹی رائٹ یونٹ کے پہلے بیچ کی پاسنگ آئوٹ تقریب سے خطاب کر تے ہوئے کہی۔ پہلے مرحلہ میں 400 جوانوں نے تربیت مکمل کی‘ رواں سال 2ہزار ایف سی جوانوں کی تربیت مکمل ہوجائے گی‘ 2023 تک 5ہزار ایف سی جوان اینٹی رائیٹ تربیت مکمل کر لیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ تنخواہیں پنجاب پولیس کے مساوی کی جائیں، 730 ملین اضافی فنڈڑ فراہم کر دیئے گئے ہیں، اسلام  آباد پولیس کو جولائی 2022 کی نئی اضافہ شدہ تنخواہ ملے گی۔ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر داخلہ کی گورنر راج کی بونگیاں شرمناک ہیں، ان کو سمجھ نہیں کیا بات کر رہے ہیں، رانا ثناء اللہ رولز پڑھ لیں کن حالات میں گورنر راج لگایا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد میں سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں رانا ثناء اللہ، مریم اورنگزیب اور دیگر کا جو رویہ ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ سیاسی طور پر عقل سے پیدل ہیں۔ انہوں نے کہا رانا ثناء اللہ کی کچھ دیر قبل کی گئی پریس کانفرنس دیکھ کر شرم آتی ہے کہ اس طرح کے لوگ ملک کے اتنے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ روز ایک تاریخی فیصلہ دیا، جج صاحبان نے جس طرح سے سیاسی دباؤ اور دھمکیوں کا مقابلہ کیا، ججز کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں بہت کم اس طرح کا مضبوط ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ یہی وہ بینچ تھا جس نے 3 ماہ قبل وہ فیصلہ کیا تھا جس کے نتیجے میں عمران خان کو حکومت چھوڑ کر جانا پڑا تھا، ہمارے اس فیصلے پر بڑے تحفظات ہیں لیکن یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم کہیں کہ سپریم کورٹ کو ہی نہیں مانتے، جیسا کہ موجودہ حکومت کے وزیر قانون نے کہا اور بعد میں پیچھے ہٹ گئے لیکن اس حکومت کے ارادے اور عزائم یہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) اس وقت ایک احمقانہ پالیسی پر گامزن ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں ناراض لیگ بننا ہے، یہ سمجھتے ہیں کہ ناراض لیگ بن کر ان کو بیانیہ مل جائے گا لیکن ایسا ہوگا نہیں، پاکستان کے عوام کو مستقبل کا ایک لائحہ عمل اور منشور چاہیے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ شہباز شریف اور پوری مسلم لیگ (ن) اس وقت دباؤ کا شکار ہے، ان کو حوصلے کا مظاہرہ کرنا چاہیے، چھوٹی اور گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں، رات کو وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کی تقریب حلف برداری پی ٹی وی پر نشر نہیں کی گئی، بیوروکریسی کو ایوان صدر جانے سے روک دیا گیا، سیکریٹری کابینہ کو ایوان صدر جانے سے منع کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات کرنے والی شہباز شریف کی حکومت ایک سسکتی ہوئی حکومت ہے، اگر ہم نے ردعمل دیا تو یہ حکومت برقرار نہیں رہ سکے گی، کور کمیٹی نے فیصلہ کرنا ہے  اسلام آباد میں تبدیلی کب لانی ہے، اس وقت ہم حکومت سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ہم چاہتے ہیں کہ تمام جماعتیں بیٹھ کر الیکشن کا فریم ورک طے کریں، طے کریں کہ الیکشن کب ہونے ہیں، ہم طے کریں کہ صاف شفاف الیکشن ہوں جس کو تمام لوگ تسلیم کریں، موجودہ الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے شفاف الیکشن ممکن نہیں ہیں، چیف الیکشن کمشنر میں ذرا بھی شرم کی کوئی رمق ہو تو ان کو استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا مگر وہ استعفیٰ نہیں دے رہے، اس لیے ہمیں ان کو تبدیل کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے پڑیں گے۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ میڈیا میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے خط پر تو ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا لیکن چوہدری شجاعت حسین کے خط پر ایکشن نہیں لیا جارہا تو میں ان صحافیوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ بات کرنے سے قبل ریکارڈ کو دیکھ لیا کریں۔ ان کا کہنا تھا ہمارے ڈی سیٹ ہونے والے منحرف اراکین کو پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر سبطین خان نے نوٹس جاری کیا تھا، پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کیا تھا، اس اجلاس کے منٹس بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں، الیکشن کمیشن کے فیصلے میں بھی یہ سب لکھا ہوا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا کہ اب ہونے والے کور کمیٹی اجلاس میں ہم نے یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہے کہ کب ہم نے وفاقی حکومت کو فارغ کرنا ہے، مرکزی حکومت کو ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہے، صدر مملکت اس حکومت کو کہیں گے کہ آپ اعتماد کا ووٹ لیں، حکومت کو 172 ووٹ حاصل کرنے ہوں گے جبکہ اس کے پاس اس وقت 163 سے زیادہ ووٹ نہیں ہیں، اس حکومت کی حالت یہ ہے کہ اس نے بجٹ صرف 95، 96 لوگوں کی حمایت کے ساتھ منظور کیا ہے۔ فواد چودھری نے کہا کہ وفاقی حکومت کو گرانا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ اس وقت وفاق وینٹی لیٹر پر ہے۔ ہم جب چاہیں اس کا سوئچ کھینچ دیں۔ مزید براں سابق وفاقی وزیر مونس الٰہی نے وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ کو جواب دیا ہے کہ پرویز الٰہی کو حلف لئے 24 گھنٹے نہیں ہوئے آپ کی ہوائیاں اڑ گئی ہیں۔ گورنر راج کے بارے میں احمقانہ بیان سے پہلے آئین پڑھ لیں۔ ماڈل ٹاؤن میں جو قتل عام آپ نے کیا ابھی تو اس کا حساب دینا ہے۔جبکہ وزیر داخلہ رانا ثناء نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ عدم اعتماد اور حکومت بنانے کے فیصلے اتفاق رائے سے کئے گئے۔ ہم نے کسی ادارے سے سپورٹ کا تقاضا نہیں کیا۔ نئی صورتحال پر اتحادیوں کا جلد اجلاس ہو گا‘ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کا ایک تسلسل ہے۔ عدلیہ صرف 3 ججز یا تین رکنی بنچ کا نام نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے لگتا ہے کہ ہمیں پنجاب میں ٹارگٹ کیا گیا۔  پرویز الٰہی نے 186 ارکان سے کم پر کابینہ بنائی تو فوراً عدم اعتماد کی فضا بن جائے گی۔ عمران کے ساتھ بیٹھنے کی جب بھی بات کی تو ہمیں گالیاں سننے کو ملیں۔ ہم نے اداروں سے نہ تعاون مانگا نہ چاہئے۔ یہ لوگ مرکز میں ہم پر حملہ آور ہونے کا شوق پورا کر لیں۔ پی ٹی آئی والے 25 مئی کی ایکسر سائز کو ذہن میں یاد رکھیں۔ دریں اثناء لیگی رہنما جاوید لطیف کا کہنا ہے کہ ہمارا پنجاب میں گورنر راج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اسلام آباد سے اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر فواد چودھری نے کہا ہے قوم سے مسترد ہونے اور سیاست میں رسوا ہونے پر 13 جماعتی امپورٹڈ گروہ دستور و ریاست پر حملہ آور ہے۔ پہلے انتظامیہ کے سربراہ کے دفتر سے مجرموں کے ذریعے عدلیہ پر یلغار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آج کرائم منسٹر نے پارلیمان کو عدلیہ کی کردار کشی کیلئے استعمال کیا۔ ایوان کو لوٹوں سے بھر کر اور راجہ ریاض کو اپوزیشن بنا کر پارلیمان کی ساکھ خاک میں ملائی گئی۔ آج منی لانڈرنگ کا ملزم پارلیمان میں کھڑا ہو کر عدلیہ پر نکتہ چینی کررہا ہے۔ اپنے بیان میں فواد چودھری نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کا معاملہ کوئی دستوری پیچیدگی نہیں‘ بنچ نے جو فیصلہ دیا اسے پوری قوم نے بالعموم اور قانونی برادری نے بالخصوص سراہا۔ فواد چودھری نے کہا کہ بلیک میلرز اور لٹیرے معاملے کا مہینوں التوا چاہتے تھے جسے عدالت نے مسترد کیا‘ شہباز شریف کے رازوں سے قوم خوب واقف ہے، وہ اپنی اور خاندان کی لوٹ مار کی رسیدیں قوم کو دیں‘ رہی سہی کسر عوام عام انتخاب میں پوری کردیں گے۔این این آئی کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ایک انٹرویومیں جاوید لطیف نے کہا کہ گورنر راج لگانے کی بات نہ تو کسی کے ذہن میں ہے اور نہ ہی ہم لگانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی گورنر راج لگانا مشکل تھا اور 18ویں ترمیم کے بعد تو انتہائی مشکل ہے۔ ن لیگی رہنما نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن میں صرف ایک ممبر فیصلے کرے گا تو دیگر ممبران کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ سوموٹو نوٹس کا اختیار 5، 6 سینئر ججز کو مل جائے تو بھی اختیار عدالت کے پاس ہی رہتا ہے، پارلیمنٹ ججز سے اختیار نہیں لے رہی نہ اختیارات محدود کیے جارہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...