پاکستان ایک مناسب ٹریک پر چل رہا تھا کہ 2016ء میں اچانک دنیا بھر میں پانامہ لیکس کا شور مچا جس میں پاکستان کے حکمران خاندان سمیت یہاں کی سینکڑوں مالدار شخصیات کی بیرون ملک مبینہ طور پر خفیہ جائیدادوں کا انکشاف ہوا۔ اس پر پاکستان کی دیگر شخصیات کو تو بخش دیا گیا لیکن حکمران خاندان پر پانامہ لیکس کی بنیاد پر عدالتی ٹرائل کا آغاز ہوا اور جے آئی ٹی تشکیل دیکر فیصلہ سنایا گیا کہ میاں نوازشریف سرکاری عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہیں کیونکہ انہوں نے بیرون ملک کا اقامہ لے رکھا تھا اور اقامہ کی رقم وصول نہیں کی۔ بات پانامہ سے شروع ہوکر اقامے پر تو ختم ہوئی لیکن اس دن سے آج تک پاکستان واپس دوبارہ اپنی ڈگر پر نہیں لوٹ سکا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی عوام کو مہنگائی‘ بے روزگاری اور مسائل کی ہی خبریں ملیں۔ گزشتہ 6سال میں کوئی خوشی کی خبر پاکستان کے عوام نہیں سن سکے۔
2018ء کے انتخابات کے بعد نئے پاکستان کی دعویدار جماعت اقتدار میں آئی جس نے ’’جھوٹ‘‘ کا نام ’’یوٹرن‘‘ رکھا۔ ملک کو ترقیٔ معکوس کی سمت لے جاتے رہے اور دن رات وزراء ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر جھوٹ بولتے رہے جس سے پورے ملک کے ہر شعبے سے برکت ختم ہوگئی ۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے دوران ملک میں ترقیاتی کام مکمل طور پر منجمد رہے اور کوئی بڑا پروجیکٹ یہ کہہ کر نہیں شروع کیا گیا کہ فی الحال قرض زیادہ ہے اور قرض میں کمی و معاشی صورتحال میں بہتری کے بعد میگاپروجیکٹس ممکن ہوں گے۔ البتہ ان کی حکومت میں کرونا کی عالمی وباء آئی جس نے دنیا بھر کی معیشت پر گہرا اثر ڈالا لیکن کرونا کے معاملے میں مکمل لاک ڈاؤن نہ کرکے کافی حد تک مناسب ترین پالیسی اپنائی گئی۔
تحریک انصاف کی 4سال کی حکومت میں ملکی قرض میں اضافہ ہوا اور حالت یہ تھی کہ ملک میں گیس ملکی ضرورت سے کم تھی اور بجلی بنانے کے لئے ایندھن خریداری کے پیسے نہیں تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی بڑھ رہی تھی۔ ایران نے طویل عرصے سے گیس پائپ لائن اپنی حدود میں مکمل کر رکھی ہے لیکن یہ حکومت امریکی خوف سے اپنی 4سالہ مدت میں اپنی ملکی حدود میں گیس پائپ لائن مکمل نہ کرسکی۔ عافیہ صدیقی کو آپ نہ لاسکے لیکن آسیہ ملعونہ کو آپ نے فرانس کے حوالے کردیا۔ توہین رسالتﷺ پر آپ میں جرات نہ ہوئی کہ فرانس کو سخت جواب دیتے۔ ایسے میں آخر امریکہ کا آپ نے کیا بگاڑا تھا کہ انہوں نے آپ کو ہٹانے کے لئے سازش کی؟ آپ نے کونسا پاکستان کو معاشی خودکفیل کردیا تھا کہ امریکہ آپ کے خلاف سازش کرتا۔
مارچ میں اس حکومت کو تحریک عدم اعتماد کا علم ہوا تو انہوں نے عالمی مارکیٹ اور ڈالر کی قیمت کے تناسب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ضروری اضافہ بھی منجمد کردیا اور معیشت کی ایسی حالت کرکے نئی حکومت کو ملک حوالے کیا کہ معاشی سخت فیصلے کئے بغیر ملک دیوالیہ ہوجاتا۔ نئی حکومت نے سخت معاشی فیصلے کرکے ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا لیکن عوام میں اس حکومت کی مقبولیت میں نمایاں کمی آئی اور عام آدمی نے موجودہ حکومت کے سخت معاشی فیصلوں کے بعد مہنگائی میں اضافے کو صرف موجودہ حکومت کی نااہلی سمجھ لیا ہے۔
بہرحال گزشتہ 4ماہ سے ملک ہیجانی کیفیت کا شکار ہے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں مستحکم حکومت ہی نہیں بن پارہی اور آئے روز نئے سے نیا آئینی بحران جنم لے رہا ہے۔ ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے جبکہ اسٹاک مارکیٹ بدترین مندی کا شکار ہے اور آئی ایم ایف سے قرض بھی نہیں مل پا رہا۔ دوسری طرف موجودہ اپوزیشن تحریک انصاف کا پرزور مطالبہ ہے کہ فوری عام انتخابات کرائے جائیں اور جسے بھی عوام مینڈیٹ دیں وہ اپنی حکومت بنائے لیکن موجودہ حکومت کی آئینی مدت اگست 2023ء تک ہے اور حکمران اتحاد بضد ہے کہ وہ اپنی آئینی مدت پوری کرکے عام انتخابات کرائیں گے۔ ساتھ ہی ساتھ نومبر 2021ء میں موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے خاتمے پر نئے آرمی چیف کی تقرری کا بھی اہم ترین معاملہ ہے جس پر حکومت و اپوزیشن کی پوری کوشش ہے کہ نئے آرمی چیف کی تقرری ان کے اختیار میں ہو۔
معاشی ماہرین کی جانب سے اگست کے آخر تک مناسب فیصلے کرکے ملک کی معیشت کو بچایا جاسکتا ہے بصورت دیگر خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ ایسے میں حب الوطنی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ ہر ایک ذاتی سیاست و مسند کو چھوڑ کرملک بچانے کے لئے آگے بڑھے اور فوری طور پر گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز کرکے ملک کو صحیح ڈگر پر لانے کے لئے دلیرانہ فیصلے کئے جائیں خدانخواستہ ذاتی ضد و انا میں کہیں ملک ہی دیوالیہ نہ ہوجائے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں مسلسل نمایاں اضافہ اچھی بات نہیں ہے۔ عوام تو پہلے ہی مہنگائی کے باعث خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں دن رات کی ٹیلی ویژن پر سیاست کا وقت تیزی سے ختم ہوتا چلا جارہا ہے۔
اگر سیاستدانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور الزام تراشی اور جھوٹ کی سیاست جاری رکھ کر ملکی معیشت کے استحکام کو اولین ترجیح نہ دی تو آئینی طور پر ملک بچانے کے ذمہ دار اداروں کو آگے آنا ہوگا اور ایسے میں قصوروار سیاستدان ہی ہوں گے کہ جو بروقت گرینڈ قومی ڈائیلاگ نہیں کر رہے اور ملک کو معاشی دیوالیہ پن کا شکار کرتے چلے جارہے ہیں۔ان تمام حالات میں نقصان صرف اور صرف ملک کا اور غریب عوام کا ہورہا ہے باقی سیاستدان اور حکمران تو جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں آٹے دال کی قیمت ہی معلوم نہیں۔ ملک کے متعلق بروقت نہ سوچا گیا تو خدانخواستہ سری لنکا کی طرح عوام نے نظام پلٹ کر رکھ دینا ہے اور پھر سبھی دیکھتے رہ جائیں گے۔ بروقت‘ درست فیصلوں کا یہی وقت ہے‘ بعد میں صرف پچھتاوا ہی ملے گا۔