گزشتہ75 سال کے دوران پاکستان میں بچوں کا ادب اتار چڑھائو کا شکار رہا تو کبھی ہموار سطح پر سست روی سے اپنا سفر جاری رکھا۔ البتہ جمود کا شکار کبھی نہیں رہا۔ کیونکہ ہر دور میں بچوں کے رسائل اور اخبارات کے بچوں کے ایڈیشن شائع ہوتے رہے اور ادیب و شاعر ان کے لیے کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھتے رہے۔اس موضوع پر محدود الفاظ میں کوئی تحقیقی مقالہ لکھنا تو ممکن نہیں البتہ سرسری یا سطحی جائزہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’پھول‘‘ کا اجراء تو قیام پاکستان سے بہت پہلے 1909ء میں دارالاشاعت پنجاب کے زیر اہتمام سید امتیاز علی تاج کے والدسید ممتاز علی نے کیا تھا۔ غلام عباس، احمد ندیم قاسمی اور دیگر کئی معروف ادیب اس کے مدیر رہے۔ تب یہ ہفت روزہ تھا۔ 1957ء تک سید امتیاز علی تاج کی ادارت میں ماہنامہ کی صورت شائع ہوتا رہا لیکن ان کے انتقال(قتل) کے بعد اس کی اشاعت بند ہوگئی۔ ستمبر1989ء سے ڈاکٹر مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ گروپ کے تحت دوبارہ اس کا اجراء کیا جو تاحال شائع ہو رہا ہے اور اس کی اشاعت میں کبھی تعطل نہیں آیا حتیٰ کہ کرونا وباء کے دوران بھی یہ مسلسل شائع اور ملک بھر میں فروخت ہوتا رہا۔ ہفت روزہ’’ہدایت‘‘ بھی اپنے دور کا بچوں کا معیاری رسالہ تھا۔ حکیم محمد سعید نے ادارہ ہمدرد کے تحت ’’ہمدرد نونہال‘‘ جاری کیا۔ جبکہ فیروز سنز کے زیر اہتمام’’تعلیم و تربیت‘‘ جاری کیا گیا۔ نوائے وقت، ہمدرد اور فیروز سنز کے تحت شائع ہونے والے یہ تینوں معیاری رسائل آج بھی شائع ہو رہے ہیں۔ احمد فوڈ انڈسٹریز نے ’’آنکھ مچولی‘‘ اور جنگ گروپ نے’’بھائی جان‘‘ جاری کیے لیکن مالی طور پر مستحکم ادارے ہونے کے باوجود دونوں اداروں نے یہ رسائل بند کر دیئے۔ اخباری گروپس میں واحد نوائے وقت گروپ ہے جو گزشتہ32 سال سے مسلسل بچوں کا رسالہ’’پھول‘‘ شائع کر رہا ہے۔ مجید نظامی صاحب کے بعد اسے محترمہ رمیزہ نظامی کی سرپرستی اور بھرپور تعاون حاصل ہے۔ کچھ ادب دوست خواتین و حضرات نے انفرادی طور پر اور کچھ ادبی تنظیموں نے اپنی مدد آپ کے تحت رسائل جاری کیے۔ کچھ بند ہوگئے کچھ شائع ہو رہے ہیں۔ کچھ آندھی میں ٹمٹماتے چراغوں کی طرح بمشکل اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ گزشتہ 75 سال سے جاری ہے۔ عام طور پر پاکستان میں شائع ہونے والے رسائل کی تعداد 35 سے 40 تک رہتی ہے جو پاکستان کے تقریباًً دو کروڑ بچوں کے لیے بہت ہی کم ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں بچوں کا کوئی ایک رسالہ بھی ایسا نہیں ہے جسے سرکاری اشتہارات کبھی ملے ہوں یا مل رہے ہوں۔
ہمارے ہاں جس طرح بچوں کو نظر انداز اور ان کی تربیت و کردار سازی کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اسی طرح حکومتی سطح پر بچوں کے ادب اور ادیبوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔ بچوں کا چونکہ ووٹ نہیں ہوتا اور وہ غیر سیاسی ہوتے ہیں اس لیے حکومتوں کی توجہ اور بچوں کے رسائل سرکاری اشتہارات سے محروم رہتے ہیں۔ بچوں کے ادیب سرکاری سرپرستی، مراعات، ایوارڈز اور اعزازات سے محروم رہتے ہیں۔ گزشتہ دہائیوں میں چند افراد ایسے بھی آئے جنہوں نے کچھ اداروں میں بچوں کے ادب کے لیے اچھا کام کیا لیکن جب وہ ان اداروں سے سبکدوش ہوئے تو ان اداروں کو بانجھ کرکے گئے۔ دس سال پہلے نجی سطح پر ’’اکادمی ادبیات اطفال‘‘ قائم کی گئی۔ جس کے تحت پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی بار چھ قومی کانفرنسیں بچوں کے ادب پر منعقد کی گئیں جن میں ہر سال آزاد کشمیر سمیت ملک بھر سے دو سو سے زائد بچوں کے ادیب شرکت کرتے ہیں۔ سرکاری سطح پر بچوں کے ادیبوں کو کوئی ایوارڈ نہ ملنے کے پیش نظر ایک لاکھ روپے مالیت کے’’تسنیم جعفری ایوارڈز‘‘ کا اجراء کیا گیا۔ جو تین سال سے ہر سال بچوں کے لیے شائع ہونے والی بہترین کتابوں پر دیئے جا رہے ہیں۔ مطالبات وہی پرانے ہیں کہ بچوں کے ادیبوں کو صدارتی اور سول ایوارڈز دیئے جائیں، سرکاری ادبی اداروں میں بچوں کے ادب کے شعبے قائم کئے جائیں اور بچوں کے ادیبوں کو ان میں کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ بچوں کے لیے کتابیں شائع کرنے کے لیے گرانٹ یا سبسڈی دی جائے۔ پی ٹی وی اور دیگر چینلز پر روزانہ دو گھنٹے بچوں کے پروگراموں کے لیے مختص کیے جائیں تاکہ بچوں کے ادیبوں کو لکھنے کا موقع مل سکے۔
بچوں کے لیے رسائل شائع کرنے والے افراد یا ادارے مبارکباد اور تحسین کے لائق ہیں جو بغیر کسی مالی منفعت، نامساعد حالات، حکومتی و سرکاری سطح پر ہر طرح کی بے اعتنائی اور حوصلہ شکنی کے باوجود بچوں کا ادب تخلیق کرکے پوری قوم کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔