اعلی عدالت کے تین رکنی بینچ نے اپنی دانست میں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا مسئلہ حل کردیا ۔ اس فیصلے نے میڈیا، قانون دان ، سیاست دان جو پہلے ہی اپنی اپنی سیاسی سوچ کے حوالے سے تقسیم تھے انہیں مزید تقسیم کردیا ہے ۔ اللہ بھلا کرے ایک سابق جنرل اور سابق چیف جسٹس جو اپنی خواہشات کی بنیاد پر ایک ایسے سیاست دان کا قوم کو تحفہ دے گئے جو عقل کل ہے مولانا طاہر القادری کا بھی ذکر ضروری ہے جنکے مریدوں کی بڑی تعداد نے تحریک انصاف کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے‘ ہر کوئی اپنی سیاسی جماعت بنا سکتا ہے عوام کے پاس جا سکتا ہے مگر اس بات کی کسی کو اجازت نہیں کہ وہ گالم گلوچ ،جھوٹے بیانئے مرتب کرے ، پھر یو ٹرن کو ایک ضروری عنصر قرار دے ، محترم بزرگ سیاست دان جو تحریک انصاف کے نائب صدر تھے وہ ابتداء ہی میں چئیرمین پی ٹی آئی کے خیالات سنکر جماعت چھوڑ چکے تھے ۔ انہوںنے بتایا کہ پارٹی کو اقتدار میں لانے کیلئے کن کن سے بات ہوئی اس میں وہی نامی گرامی افراد شامل تھے جنکا ذکر مندرجہ بالا جملوںمیں کیا گیا ہے ۔ لندن میں موجودخودساختہ جلا وطن سابق وزیر اعظم کو تاحیات نااہل کرنے والے جج کو 2018 ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد چیف جسٹس بنا دیا گیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ تقسیم در تقسیم قوم کو غیر شفاف ، اوراپنی ضد کو سامنے رکھنے والا کوئی بھی اقدام اکثریت کو قابل قبول نہیں ہوتا ، اور قبول نہ کرنے والے حق بجانب ہیں ۔ ایک ماہ سے تخت پنجاب پر قابض ہونے کی تگ دوکے بعد بھی ‘حالیہ وزیر اعلی چوہدری پرویز الٰہی جو وزیر اعلیٰ بننے کے خواہاں تھے ، کیلئے پنجاب اسمبلی میں مار کٹائی کے مناظر بھی دیکھنے ملے جسے دیکھ کر نہیں لگتا تھا کی دونوںجانب سے اراکین عوام کی خدمت کیلئے منتخب ہوئے ہیں۔سیاسی منظر میں یہ بات بھی ایک مضحکہ خیز ہے پی ٹی آئی نے 9 متنازعہ نشستیں رکھنے والی جماعت مسلم لیگ ق کے پرویز الہی کو وزارت اعلی دلوادی۔ انہیں وہ کس نام سے پکارتے تھے ۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکالوجس پر زندگی میں کبھی پچھتانا پڑے۔تین رکنی بینچ کا فیصلہ صرف اس لئے متنازعہ گردانا جارہاہے کہ مرکزی حکومت میں موجود جماعتوںنے مطالبہ کیا تھا کہ مقدمہ کی سماعت فل بینچ کرے ، یہ مطالبہ انکا حق تھا ۔ معزز چیف جسٹس نے یہ استدعا تسلیم نہیں کی ۔ اگر چیف صاحب فل بینچ بنادیتے تو فیصلے کے مخالفین کو مزید بات کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ انکے ساتھ انصاف نہیں ہوا ، چونکہ کہ تاثر ہو چلا ہے کہ سیاسی مقدمات میں مخصوص جج صاحبان کو ہی شامل کیا جاتا ہے اور بینچ بنتے ہی یہ بات بھی آجاتی ہے کہ ا ب فیصلہ کیا ہوگا یہ بات ہمارے معزز اداروںکیلئے افسوسناک ہے ۔ اسوقت قوم ، میڈیا ، سیاست دان ، ججز تقسیم در تقسیم ہیں یہ مایوسی اور افسوس کا مقام ہے شام سات بجے سے پوری قوم کام چھوڑ کر اپنے من پسند چینلز لگالیتی ہے ۔ سب کو پتہ ہے وہ کیا کہیں گے ۔ جج بھی انسان ہیں اور اپنی سوچ رکھتے ہیں ۔ غرض اب یہ فیصلہ پنجاب یا ملک میں کسی سیاسی استحکام کی نوید ہر گز نہیں ۔ چونکہ مختلف مقدمات میں معزز عدلیہ نے مختلف طریقوںسے اس آرٹیکل کی تشریح کی ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور تین رکنی بینچ کے اٹھارویں ترمیم، اور اکیسویں ترمیم کے متعلق خیالات متصادم تھے۔عدلیہ ، الیکشن کمیشن ، اسٹیبلشمنٹ کے متعلق واضح طور پر زہر افشانی کی جا رہی ہے ، جسکی ابتداء تحریک انصاف نے کی کس کس ناموںسے انہیں پکارا ۔اب تو دوسری جماعتیں بھی اسی بیانئے کی طرف چل پڑی ہیں انکے بیانئے بھی مذمت کے قابل ہیں ملک میں کسی ادارے کو بخش دیں ، اور اداروںکو خیال کرنا چاہئے۔ افسوس اس بات کا ہے اس صورتحال میں ہماری لولی لنگڑی معیشت مزید تباہی کی طرف جارہی ہے کرسی کے چکرمیں میوزیکل چئیر کھیلنے والوںکو اسکا احساس نہیں ہمارے سیاسی ، حکومتی ، معاشرتی عدم استحکام پر دنیا ہمارا مذاق اڑا رہی ہے ایٹمی توانائی رکھنے والے اس ملک کی عدم استحکام نے دنیا کو ششدر کردیا ہے ۔ آئی ایم ایف جس سے قرض لینا ضروری ہے وہ نئی نئی شرائط عائد کررہاہے ۔ قوم کو مایوس کرنے کیلئے سیاست دان ہمیںسری لنکا بننے کا عندیہ دے رہے ہیںمگر صورتحال الحمد اللہ ایسی نہیںبس ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ حکومت اپنے طور پر معیشت کو سنبھالنے کیلئے بہت سے اقدامات کر رہی ہے۔ چین سے سولر پاور پلانٹ حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بجلی سستی اور اس کی قلت بھی دور ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ چین اور افغانستان سے تجارتی لین دین ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی میں کرنے کی بات چیت چل رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے علاوہ بعض دوست ملکوں سے اسی ہفتے 3ارب ڈالر ملنے کی بھی توقع ہے جس سے گرتی ہوئے روپے کی قدر اور سٹاک مارکیٹ کی مندی پر بھی قابو پایا جا سکے گا۔