میاں غفار احمد
سپریم کورٹ نے بہت واضح اور دو ٹوک فیصلہ دے کر جہاں اس قوم کو قانون کی حکمرانی کا بہت بڑا ثبوت دے دیا ہے وہاں اعلیٰ عدلیہ پر عمومی اعتماد بھی مستحکم ہوا ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کو نا صرف کالعدم قرار دیدیا بلکہ ایوان میں اکثریت رکھنے والے چودھری پرویز الٰہی کو فوری طور پر قائد ایوان مقرر کرتے ہوئے فیصلے سنائے جانے کے دو گھنٹے بعد ہی وزارت اعلیٰ پنجاب کا حلف لینے کے لئے گورنر پنجاب کو ہدایات جاری کر دیں اور گورنر کے کسی بھی حوالے سے تاخیری قدم پر صدر مملکت کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کے لئے چودھری پرویز الٰہی سے حلف لینے کا حکم بھی جاری کر دیا۔ یہ ہوتے ہیں فیصلے کہ بلا کسی ابہام ایک کے بعدایک امر کو واضح کر دیا گیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ حمزہ شہباز شریف کا حلف ہی غیر آئینی تھا۔ اللہ کی شان ہے کبھی نواز شریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو 22 کلومیٹر تک محدود کر دیا تھا۔ آج وقت نے پلٹا کھایا تو ان کا بھائی اسی پوزیشن پر آ گیا۔
اس سیاسی جنگ نے ایک اور چیز ثابت کر دی کہ موجودہ سیاسی میدان کے سیاستدانوں کی اگلی نسل میں سے جس قسم کی یکسوئی اور پختگی مونس الٰہی کے ہاں ہے وہ فی الحال تو اور کہیں نظر نہیں آتی۔ اس سارے ہنگامے میں بہت نپے تلے انداز میں جوڑ توڑ اور پیغام رسانی کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد کی صحیح جانشینی کی اور سابق وزیراعظم عمران خان سے بھی جو ملاقاتیں کرتے رہے ان کا بھرے جلسے میں اعتراف بھی کیا پھر وہ اپنے خاندان سے بھی رابطہ رکھتے رہے۔ اعصاب شکن سیاسی جوڑ توڑ میں مونس اپنے والد کو بھی اپنے فیصلوں میں مستحکم رکھتے ہیں اور پھر بھرپور رابطہ مہم بھی چلاتے ہیں۔ ایک طرف چودھری مونس الٰہی نے بھرپور کندھا دے کر اپنے والد کو مزید قدآور بنا دیا اور دوسری طرف چودھری شجاعت حسین کے بیٹوں نے اپنے والد سے مغرب سے تھوڑی ہی دیر قبل روزہ تڑوا کر ان کی نصف صدی پر محیط سیاسی ساکھ اور وضعداری کو برباد کر دیا۔
قرآن مجید میں رب تعالیٰ نے مال اور اولاد کو ایسے ہی تو آزمائش قرار نہیں دیا کہ اولاد بعض اوقات والدین کا سارا بھرم بھی تو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ (ن) کسی بھی طورپر اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کو تیار نہیں اور جس طرح اس جماعت نے ایک منظم منصوبے کے تحت سپریم کورٹ پر سابق چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کے دور میں حملہ کرایا تھا۔ سالہا سال بعد بھی اسی طرح 25 جولائی بروز سوموار سپریم کورٹ کے ججز پر الفاظ کے زہریلے نشتر چلائے۔ اس فیصلے کے بعد سابق ہونے والے وزیراعلیٰ حمزہ شہباز جنہیں 23 جولائی کو عبوری وزیراعلیٰ کے طورپر انتہائی محدود اختیارات دئیے گئے مگر انہوں نے اپنی خاندانی روایت کے مطابق خود سری کرتے ہوئے پنجاب کی سب سے بڑی کابینہ تشکیل دے کر سپریم کورٹ کو چنوتی دے ڈالی تو دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس میں سپریم کورٹ کے خلاف تمام اتحادی جماعتوں کی طرف سے کی گئی طویل ترین پریس کانفرنس میں جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ کسی بھی تہذیب کے زمرے میں نہیں آتے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں جشن شروع ہو گئے لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر جمع ہو گئے۔ دکانوں پر مٹھائیاں ختم ہو گئیں اور ٹوکروں کے ٹوکرے مٹھائیوں کے تقسیم کئے گئے۔پی ٹی آئی کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے گلے میں ہار بھی ڈالے۔ پنجاب کابینہ کے تحلیل ہوتے ہی نومولود کابینہ کی تمام خوشیاں دھری کی دھری رہ گئیں اور کئی وزراء نے تو ابھی تک اپنے دفاتر کی شکل بھی نہ دیکھی تھی کہ سر منڈواتے ہی اولے پڑ گئے۔
اس تمام صورتحال میں جنوبی پنجاب کے لئے عمومی جبکہ بہاولپور کے عوام کے لئے خصوصی خوشخبری یہ ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کے سامنے طارق بشیر چیمہ کا کردار کھل کر سامنے آ گیا جنہوں نے پانچ سال برادری کا ڈھونگ رچا کر بہاولپور میں مظالم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کیں اور مخالفین کو اتنی اذیتیں دیں کہ شاید ہی اس کی مثال جنوبی پنجاب میں کسی اور جگہ ملتی ہو۔ سالہا سال سے لڑاو اور حکومت کرو کے فلسفے پر ایمان رکھنے والے طارق بشیر چیمہ آخر کار اپنے سب سے بڑے محسن خاندان کو بھی آپس میں تقسیم کرا گئے اور سیاسی زندگی میں ایک بوٹی کے لئے پورا بیل ذبح کرنے والے طارق بشیر چیمہ نے چودھری برادران میں بھی نہ ختم ہونے والی دراڑ ڈالنے میں اپنا بھرپور کردار ادا فرمایا۔ اب شاید وہ چودھری برادران سے کئی سال تک لاتعداد مفادات سمیٹے کے بعد مزید مفاد نہ لے سکتے تھے تو اسی برتن میں چھید کر کے مسلم لیگ ن کی دیگ کی تہہ میں جا بیٹھے۔ امید ہے کہ اس مرتبہ چودھری پرویز الٰہی اس طرح کے لوگوں کے جال سے خود کو بچا کر رکھیں گے۔
بطور وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے لئے مرکز میں پہلے ہی سے کھوکھلی حکومتی بوری میں "بمبو" لگا کر ممبران اسمبلی کی صورت میں چند دانے نکالنا کوئی مشکل نہیں ہو گا کہ میاں شہباز شریف پر دشمن بنانا اور چودھری پرویز الٰہی پر دوست بنانا ختم ہے۔ دونوں اپنے اپنے فن میں مہارت رکھتے ہیں۔
رہا معاملہ نوجوان سیاسی کھلاڑی دوست محمد مزاری کا تو انہوں نے اپنی سیاست کو ابتدائ ہی میں فی الحال تو اپنے ہاتھوں دفن کر دیا ہے مگر اس سازشی کھیل کا اہم مہرہ بن کر یقینی طور پر وہ اس قابل تو ہو ہی گئے ہوں گے کہ کوئی چھوٹا موٹا جزیرہ خرید کر باقی زندگی مچھلیوں کا شکار کریں کیونکہ جو جال انہوں نے بنا تھا اور جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے نشتر سے چاک ہو گیا اسے تروپے لگا کر استعمال کرنے کا فن تو انہیں اب آ ہی گیا ہے۔