کسی نے رکھا تھا روم کولر،کسی نے واشنگ مشین رکھی
کسی نے پختہ احاطے میں کچھ بچا کے کچی زمین رکھی
پرانی میزیں، وہ ایک کرسی کہ جس کا ٹوٹا ہوا تھا بازو
کئی کھلونے جو دھوپ بارش کو اب میسر تھے فرصتوں سے
تو کتنے بچوں کا بچپنا بھی پرانا ہو کر وہیں پڑا تھا
کہیں تو گملوں کی کوکھ سونی دہائی دیتی سنائی دی تھی
کہیں درختوں کی چھاوں چھت سے مجھے تو لپٹی دکھائی دی تھی
جو پچھلی دیوار سے لرز کے وہ چار پائی لگی کھڑی تھی
وہ یونہی سردی کی دھوپ آنے تلک یہاں بس کھڑی رہے گی
کئی گھروں کی چھتوں پہ ماضی بھلا کے بیٹھا تھا حال اپنا
بہت ضروری ہے اک احاطہ کہ ہم بھی رکھ دیں سوال اپنا
(شاذیہ اکبر)