کلمہ طیبہ کا ورد

اکثر ہم دعا کرتے ہیں کہ یااللہ جب موت آئے تو کلمہ نصیب ہو اور جب کوئی شخص کلمہ پڑھتے ہوئے وفات پاتا ہے تو اس کے احباب اور رشتہ دار فخر کے ساتھ اس کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہیں۔ عام خیال ہے کہ یہ اللہ کی دی ہوئی سعادت ہے جو صرف اسی کے پسندیدہ بندوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ ایسے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں شخص بستر مرگ پر تھا اور باوجود دوسروں کی کوشش کے اس کے منہ سے آخر وقت میں کلمہ کے الفاظ ادا نہ ہو سکے۔   
کوئٹہ میں اوائل نوکری کے دنوں میں علاقہ گشت پر تھا کہ فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ ہم فوراً وہاں پہنچے، دیکھا کہ ایک شخص خون میں لت پت پڑا تھا اور گولی لگی تھی۔ اسے پولیس کی پک اپ میں پیچھے ڈالا اور ہسپتال کے لئے روانہ ہوگئے۔ میں بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ ہوش میں تھا لیکن کراہ رہا تھا۔ میں نے اس سے بات چیت شروع کر دی تاکہ ہوش میں رہے۔ پوچھنے پر بتایا کہ گولی لگنے کی وجہ لین دین کا تنازعہ تھا۔ ابھی بات شروع ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ اس نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا اور پھر اس کا جسم بے جان سا ہو گیا۔ میرے ساتھیوں نے بتایا کہ یہ شخص اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اس کی روح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی تھی۔ یوں کسی کو مرتے ہوئے دیکھنا میرے لئے پہلا تجربہ تھا اور مجھے خوف سا محسوس ہوا۔ 
فوج اور پولیس والوں کے ساتھ دوران سروس ایسے مواقع ضرور آتے ہیں جب وہ کلمہ پڑھ لیتے ہیں کہ شاید آخری وقت آ پہنچا۔ خوش قسمت وہ ہے جو شہادت کی موت پائے لیکن غازی ہونے کا مرتبہ بھی نصیب والوں کو ہی ملتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ایک واقعہ میرے ساتھ بھی پیش آیا۔ کوئٹہ میں پہلی پوسٹنگ تھی۔ بحیثیت  اے ایس پی جذبہ اور جنون جوان تھا۔ کوشش کرتا کہ ہر پولیس مقابلے یا مجرمان کے تعاقب میں خود جاؤں اور اپنے ہاتھوں سے انہیں ہتھکڑی پہنا کر پابند سلاسل کروں۔ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ اطلاع ملی کہ ایک بدنام زمانہ اور انتہائی مطلوب ڈاکو سریاب کے علاقے میں ایک گھر
 میں موجود ہے۔ اگرچہ وہ میرا علاقہ نہ تھا، میں اپنے جذبہ اور سنسنی خیز مقابلے کی خواہش کو نہ دبا سکا اور دس بارہ جوانوں کو لے کر مخبر کے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا۔ ہمراہ نفری کو گھر کے باہر مختلف جگہوں پر تعینات کیا اور خود چھلانگ لگا کر دروازے کے اوپر چڑھ گیا کہ صحن اور اندر کا جائزہ لے سکوں لیکن جوں ہی میں نے اوپر سے جھانکا، اندر سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی۔ انتہائی خوفناک تڑ تڑ کی آوازیں۔ گولیاں سائیں سائیں کرتی میرے دائیں بائیں ،اوپر سے گزر گئیںاور میں دھڑام سے چاروں شانے چت زمین پر گرا۔ ابھی زمین پر گرا ہی تھا کہ وہ دروازہ جس پر چڑھ کر اندر جھانک رہا تھا، زوردار آواز کے ساتھ کھلا اور پانچ چھ لمبے تڑنگے افراد فائرنگ کرتے ہوئے باہر نکلے۔ میں زمین پر دم سادھے لیٹا رہا اور سمجھا کہ اب آخری وقت آگیا ہے اور یوں اسی وقت میں نے دل ہی دل میں کلمہ بھی پڑھ لیا۔ وہ لوگ میرے اوپر سے پھلانگتے ہوئے باہر نکل گئے۔ ایک نے جاتے ہوئے مجھے زوردار لات بھی ماری۔ وہ یا تو مجھے مردہ سمجھ بیٹھے تھے یا ایک پولیس والے کو مار کر اپنی دشمنی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ تھوڑی دیر تو میں ساکن پڑا رہا، پھر آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ ہر طرف مکمل سناٹا تھا۔ ایک دیوار کے پیچھے سے ہلکی سی سیٹی کی آواز سنائی دی اور میرے وہ تمام ساتھی جو گولیوں کی پہلی بوچھاڑ پر دائیں بائیں چھپ گئے تھے، آہستہ آہستہ باہر آنے لگے۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی۔ لیکن چونکہ میری جان بچ گئی اور کوئی اور بھی زخمی نہ ہوا تھا، لہذا دوسرے علاقے میں جا کر آپریشن کرنے پر کچھ زیادہ سرزنش نہ ہوئی۔
اسی طرح ہم کوئٹہ میں دو ڈاکوؤں کا تعاقب کر رہے تھے۔ وہ بہت تیزی سے بھاگ رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ شاید ہم ان کا تعاقب چھوڑ دیں لیکن جب دیکھا کہ چاروں طرف سے گھیرے میں آگئے ہیں تو انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور ہاتھ کھڑے کر دیئے۔ جب ہم ان کے نزدیک پہنچے تو انہوں نے کلمہ پڑھنا شروع کردیا۔ وہ سمجھے تھے کہ ہم انہیں مار دیں گے۔ لیکن ہمارا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ ان کا مکمل کیس بنایا اور سزا کے لیے عدالت سے رجوع کیا۔
راولپنڈی بطورایس ایس پی پوسٹنگ کے دوران ہمیں اطلاع ملی کے راجہ بازار کے علاقہ میں ایک بم پڑا ہوا ملا ہے۔ یہ گیارہ ستمبر Twin tower والے واقعہ سے پہلے کا وقت تھا اور ابھی شہری علاقوں میں بم دھماکوں کا وہ سلسلہ شروع نہ ہوا تھا جس کا آغاز نائن الیون کے بعد ہوا۔ پہلے سے نصب کردہ بم یا خود کش حملوں سے تقریباً ناواقف تھے۔ سمجھ نہ آیا کہ اس بم کو کیسے ٹھکانے لگایا جائے۔ بحرحال آرمی بم ڈسپوزل کے ماہرین آئے اور انہوں نے بہت حد تک اس مرحلے کو پیشہ ورانہ انداز میں طے کیا۔ خدشہ تھا کہ دوران ڈسپوزل بم پھٹ سکتا تھا۔ پھر ان جوانوں نے نہایت بہادری کے ساتھ کلمہ پڑھتے ہوئے اس بم کو اٹھایا اور کہیں اور منتقل کیا۔ بعد میں بدقسمتی سے جب یہ سلسلہ عام ہوا ہم نے بم کو اسی جگہ جہاں وہ پایا جاتا تلف کرنے کی پیشہ ورانہ صلاحیت حاصل کرلی۔
میں چھوٹا سا تھا جب پہلی بار والد صاحب کے ہمراہ نماز جنازہ پڑھنے کا تجربہ ہوا۔ نماز ختم ہوگئی تو میں نے والد صاحب سے سوال کیا کہ اذان تو ہوئی نہیں، پھر نماز کیسے ہوگی۔ انہوں نے جواب دیا کہ اس نماز کی اذان اس مرنے والے کی پیدائش پر ہوگئی تھی۔ یہ زندگی اتنی مختصر سی ہے جتنی کی اذان کے بعد نماز میں وقفہ۔
آتے ہوئے اذاں ہوئی جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے چلے گئے
جو دن گزر گیا اس کے لیے دکھی نہ ہوں، جو دن ابھی آیا نہیں، اس کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج کے دن کو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے میں گزاریں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ زندگی با مقصد ہو جائے اور اگر اللہ کے بندوں کے کام آئے تو کیا ہی بات ہے۔ لڑکپن کے دنوں میں ایک western movie دیکھی نام تھا Hombre اور ہیرو کا نام  Paul Newman تھا۔ یہ صاحب فلم کے آخر میں معصوم لوگوں کی جان بچاتے ہوئے مارے جاتے ہیں۔ جبکہ باآسانی اپنی جان بچا کر نکل سکتے تھے۔ ایک آدمی اس مرتے ہوئے شخص سے سوال کرتا ہے کہ تم نے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالی۔ مجھے اداکار  Paul Newman کے الفاظ آج تک یاد ہیں، اس نے کہا ''مرنا سب نے ہے، سوال یہ ہے آپ نے موت کیسی پائی''۔

ای پیپر دی نیشن