سیاسی صورتحال نے پوری قوم کو ایک ذہنی اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے. ملکی سیاسی صورتحال اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ کوئی بھی وثوق سیایک دعویٰ بھی نہیں کر سکتا، کیونکہ رات سوتے وقت صورتحال کچھ کہہ رہی ہوتی ہے تو ناشتے کے وقت یہ صورتحال بدل کر کچھ اور شکل اختیار کر گئی ہوتی ہے اور ظہرانے پہ معاملہ کسی اور ہی شکل میں سامنے آیا ہوتا ہے اور پھر عشائیے پر پورا منظر ہی بدل جاتا ہے. یہی وہ حالات و واقعات ہیں جن کی وجہ سے آج ملک معاشی ابتری کا شکار ہے. اسی کا یہ اثر آپ زندگی کے ہر شعبے پر بھی پڑ رہا ہے، اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کہیں استحکام نظر نہیں آرہا ہے. ایک چیز کا ریٹ صبح کچھ ہے تو اگلے وقت کچھ اور. ملک میں سیاسی اور حکومتی پارہ اتنا چڑھا ہوا ہے کہ اس کی حدت اور شدت سے بائیس کروڑعوام بھی اس میں جھلس رہی ہے. ہر کوئی صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے صبح تک ایک عجیب سی ذہنی اذیت سے دوچار ہے. یہ سب کچھ کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ملک میں موجود حکومت کو حکومت کھل ڈل کر کرنے نہیں دی جارہی. جب حکومت سیاسی شورشوں میں گھری رہے گی تو اس نتیجہ یہی ہوگا جوآج ہمارے اور آپ کے سامنے ہے. مسلم لیگ (ن)اور اس اتحادی جماعتوں پر مشتمل وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد کو ہمارا یہ مفت اور مفید مشورہ ہے کہ خدارا آپ لوگ جس سرزمین پاک کے باسی ہیں تو کم از کم اس کے باسیوں کی خاطر اپنی تمام عزت، انا، اختلافات اور قدورتوں کو بالایئ طاق رکھ کر ملک و قوم کی بقا، سلامتی، خودمختاری، اس کی ترقی وخوشحالی پر یکسوہو جائیں. ایک قومی سوچ و فکر کے ساتھ ملکی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا جائے. جو جماعت برسراقتدار آئے اسے اس کی مدت میں کارکردگی دکھانے کا موقع دیا جائے. مخالفت برائے مخالفت کی سیاست کو ترک کر کے ایک قومی سوچ پر مبنی حقیقی صاف ستھری سیاست کو فروغ دیا جائے. آپ کے علم میں ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی جماعتوں پر مشتمل حکومت 10 اپریل 2022 کو قائم ہوئی جب 2020–2022 کے پاکستانی سیاسی بحرانوں کے دوران عمران خان حکومت پر عدم اعتماد کا ووٹ دیا گیا جس کے بعد حزب اختلاف کی آٹھ سیاسی
جماعتوں اور چار آزاد ارکان پر مشتمل جماعتوں کی طرف سے شہباز شریف کو وزیر اعظم کے لیے امیدوار نامزد کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت میں اتحادی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل، ایم کیو ایم(پی)، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی،پاکستان مسلم لیگ (ق)،جمہوری وطن پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی وچارآزادارکان پر مشتمل ہے. اگرچہ شہباز شریف نے 11 اپریل 2022 کو وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ان کے پاس حکمران اتحاد میں 2 نشستوں کی اکثریت تھی جو 8 سیاسی جماعتوں اور 4 آزاد امیدواروں پر مشتمل تھی لیکن پہلے دن سے آج تک شاید ہی کوئی دن ایسا گذرا ہو کہ سکون رہا ہو وگرنہ ہر روز صبح اٹھنے سے رات سونے تک چوں چوں کا شور و غوغا ہے. تمام سیاسی اکابرین کو ٹھنڈے دماغ سے مزاکرات کی میز پر سرجوڑ کر بیٹھنا چاہیے کیونکہ ملک و قوم آج جس معاشی، سیاسی، ذہنی مشکلات سے گذر رہی ہے تو یہ اس بات کا تقاضا ہے کہ ہمیں ایک قومی سوچ کے ساتھ ان مشکل حالات سے نکلا جائے. اچھی قومیں وہی ہوتی ہیں جو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی فکر کریں اور ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے میں یکسو ہوں. ہر ادارے کو اپنی اچھی کارکردگی دکھانے کے لئے انھیں آزاد چھوڑ دیا جائے اور آج سے ہی یہ عہد کیا جائے کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے اور کفایت شعاری کی پالیسی کو اپنایا جائے.
جب ڈی چوک پر پی ٹی آئی کے حامی توقع سے کم تعداد میں جمع ہوئے اور پولیس کے سخت ایکشن بشمول آنسو گیس کے استعمال کا مقابلہ نہیں کرسکے تو عمران خان نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اگرچہ سابق وزیرِاعظم نے حکومت پر مارچ کو روکنے کے لیے طاقت کے استعمال کا الزام عائد کیا ہے لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرچکے ہیں کہ ان کی جماعت کسی ایسی کوشش کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھی جس کے نتیجے میں حکومت پر قبل از وقت انتخابات کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔ سیاسی جماعتیں بعد از انتخابات صورتحال کی تیاری کس طرح کریں؟وہ مختلف اوقات میں مختلف وضاحتیں پیش کرتے رہے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ 'آزادی مارچ' کشیدگی کے خطرے کی وجہ سے جلد ختم کردیا گیا کیونکہ ان کے کچھ لوگ مسلح تھے۔
لیکن اس ناکام مارچ نے بھی عمران خان یا ان کے حامیوں کو ایک اور مارچ کی منصوبہ بندی سے نہیں روکا۔ عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگر فوری طور پر انتخابات کا اعلان نہیں کیا گیا تو 'لاکھوں' لوگوں پر مشتمل یہ مارچ اسلام آباد کا رخ کرے گا۔ وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے تو ایک قدم ا?گے بڑھتے ہوئے دھمکی بھی دی تھی کہ اگر مارچ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی تو وہ صوبائی پولیس کا استعمال کریں گے۔ اس بیان پر وفاقی کابینہ نے سخت ردِعمل دیا اور اعلان کیا تھاکہ مستقبل میں ہونے والے کسی بھی مارچ کو 'پوری قوت' کے ساتھ روکا جائے گا۔ وفاقی وزیرِ داخلہ نے مزید گرفتاریوں کے بارے میں بھی خبردار کیا اور ابھی بھی وہ گاہے بگاہیئ دبکے لگاتے رہتے ہیں. جس کی وجہ سے پی ٹی آئی ایسا کوئی دوبارہ مارچ یا احتجاج نہیں کرسکی جس سے بھرپور شو آف پاور ہوسکے. قطع نظر ان تمام باتوں کے ہمیں اب ایک مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا. جس میں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا. آج وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ ماضی کی بڑی بڑی تمام حریف جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاست ترک کر دی اور اسی کا یہ ایک عملی ثبوت ہے کہ ماضی کی روایتی حریف جماعتیں مسلم (ن)، پی پی پی پی، جے یو آئی ف، اے این پی، ایم کیو ایم سمیت بیشتر جماعتوں نے اب اتحاد کیا ہے اور سب جماعتیں کابینہ میں نمائندگی بھی کررہی ہیں اور ملکی تعمیر و ترقی کے عمل میں بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہیںاب سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں صوبہ پنجاب میں حکومت جانے سے ن لیگ اور ان کی اتحادی جماعتوں کو سیاسی نقصان پہنچانے کی باتیں کی جارہی ہیں جبکہ مرکز میں حکومتی اتحاد نے تمام تنازعات سے بالا ہوکر ملک کی تعمیر و ترقی پر اپنی توجہ مرکوز کر دی ہوئی ہے اور میرے خیال میں ان مثبت تعمیری منصوبہ جات سے ہی نواز لیگ و اتحادی عوام کا ووٹ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ چوہدری پرویز الٰہی کے وزیرِاعلٰی بننے سے ن لیگ کو پنجاب میں کوئی طویل مدتی خطرہ نہیں ہو گا کیونکہ پرویز الٰہی خود بھی جس قسم کی طبیعت کے مالک ہیں وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ ن لیگ کے ساتھ محاذ آرائی کریں۔ماضی میں بھی وہ حمزہ شہباز وغیرہ کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں اور انھوں نے محاز آرائی کی کوشش نہیں کی اور اب بھی اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ وہ ایسا کریں گے۔ان کے آنے سے پنجاب میں ن لیگ کو کوئی بڑا سیاسی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ ان کے پاس آپشنز بہت ہیں جن کی مدد سے وہ واپس آ سکتے ہیں۔نواز شریف واپس آ سکتے ہیں، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ایک مرتبہ پھر اپنایا جا سکتا ہے، ن لیگ بچ جائے گی ان کے پاس بہت آپشنر ہیں۔