حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ جنت میں رہتے ہوئے ایک دن سوچا کیوں نہ دنیا میں جاکر اپنی قوم کا حال دیکھیں، سو ان کی خواہش پران کو زمین پر بھیج دیا گیا۔ جب وہ اپنی قوم میں پہنچے تو انھیں یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ ان کی تعلیمات کو مکمل طور پرتبدیل کردیا گیا ہے۔ وہ مذہبی اور سیاسی اشرافیہ سے ملے اور انھیں اپنا تعارف کروایا۔ ان لوگوں نے نہ صرف ان کا مذاق اڑایا بلکہ جیل میں ڈال دیا۔رات کوان سے ملاقات کے لیے چند مذہبی پیشوا قید خانے میں آئے، انھوں نے مؤدبانہ اندازمیں کہا ’’آقا! ہم جانتے ہیں کہ آپ عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں لیکن آپ کے بعدہم نے آپ کے بعدآپ کی تعلیمات کو اس قدر بدل دیاہے کہ اب پوری قوم کی واپسی ممکن نہیں۔ معروف روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی (Tolstoy Leo) کے ایک ناول کا یہ منظر آج تک میرے حافظے میں موجود ہے۔ یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ ہم مسلمانوں نے بھی اپنی تاریخ کے ناقابل فراموش واقعات کو حقیقی زاویوں سے نہیں دیکھا۔
سیدنا امام حسینؓکی شہادت کاسانحہ تاریخ عالم میں جرأت اوربہادری کی ایک مثال کے طور پر یادر کھا جائیگا، حسینیت کسی فرقے یا گروہ کے مقاصد کی تکمیل کا نام نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک انقلابی نظریہ ہے۔ آج کی انسانیت کیلئے امام حسینؑ کے فلسفہ شہادت سے آگاہی ضروری ہے۔ آنحضور صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم نے اپنے نواسوں کو جنت کے جوانوں کا سردار قرار دیا تھا۔ تواریخ ِ عالم کے صفحے اس غم میں سیہ پوش ہیں کہ امت نے فرمانِ رسول صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کوفراموش کردیا۔ سیدنا امام حسنؓ کو سازش کے تحت زہر دے کر شہید کیا گیا اور سیدنا امام حسینؓ کو کربلائے معلی میں ان کے خاندان اور ساتھیوں سمیت بیدردی کے ساتھ خون میں نہلا دیاگیا۔ تاریخ اسلام کے اس اندوہ ناک سانحے کے اثرات صدیوں بعد بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔ امت محمدیہ حضرت امام حسینؓ اوران کے ساتھیوں کی شہادت کے واقعے پر اپنے انداز میں احتجاج کرتے ہیں۔ ذہن میں اکثریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر صدیوں کے اس احتجاج کے باوجود ہمارے ہاں ظلم وجبرکی حکومتوں کوروکا کیوں نہیں جا سکا؟ آج کی مسلم دنیا کے اکثر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ بدترین قسم کی آمریت مسلط ہے۔ اکیسویں صدی کے یہ لوگ علمی اور فکری لحاظ سے پندرہویں صدی کے باشندے ہیں اور انکے حاکم غیرقوموں کے مفادات کے محافظ۔ آج بھی کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے بحیثیت قوم سیدنا حسین ابن علیؓ کی عظیم مزاحمت کو سرسری اندازمیں دیکھا ہے، اس کی روح تک پہنچنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ افسوس کہ مسلمان قوم غم ِحسینؓ تو ہر سال مناتی ہے لیکن یزیدی سوچ کا قلع قمع کرنے کی اس نے آج تک کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ معروف ایرانی سکالر ڈاکٹر علی شریعتی کے مطابق سیاہ رنگ غم اورسوگ کی علامت ہے جبکہ سرخ رنگ مزاحمت اور قربانیوں کا استعارہ ہے۔ کربلائے معلی میں حضرت امام عالی مقامؓ کے روضے پرلہراتا ہوا سرخ پرچم آج بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ ا س قبرکے مکین کے ناحق خون کا بدلہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ دنیابھرکے ظالم حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کیخلاف احتجاج کیا جائے۔ ظلم وجبر کے ابوالہولوں کی کوشش رہی ہے کہ مختلف حربے استعمال کرکے مزاحمت کے اس آفاقی پیغام کو لوگوں سے ذہنوں سے محو کردیا جائے۔ عمومی رویہ بھی یہی ہے کہ سیدنا حسین ابن علیؓ کی جدوجہدکو علامتی انداز میں لیا جائے لیکن اس کے بطون میں چھپے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسکے اقتدار اعلیٰ کے غلبے کے پیغام کو یکسر فراموش کردیا جائے۔ واقعہ کربلاکے تناظر میں تین انسانی گروہوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پہلا گروہ سیدنا حسین ابن علیؓ اوران کے ساتھیوں پرمشتمل ہے ، یہ جماعت آخری وقت تک ظلم اورجبرکے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنی رہی، انھوں نے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی جان کی پروا تک نہ کی۔ وقتی طور پرانھیں ناکامی ہوئی لیکن آنے والے زمانوں نے عدل وانصاف کیا اور آج اس جماعت میں شامل مقدس ہستیوں کے چہرے چاند اورستاروں کی طرح روشن ہیں۔ دوسرا گروہ یزید اور اس کے دربار یوں کا تھا، اس گروہ نے ہر صورت میں اپنی خواہشات کی تکمیل کی۔ یہ گروہ جھوٹی تاویلوں سے سچ کو جھوٹ کے پردوں میں چھپانے کی قدرت رکھتا ہے۔ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ مقدس اور محترم ہستیوں کی گردنیں بھی اڑا سکتا ہے۔ میدان کربلا میں تیسرا گروہ ابن الوقت لوگوں کا تھا۔ ان کا نمائندہ عمربن سعد ہے لیکن ملکِ رے کے اقتدار کی خواہش میں تردد اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ یہ دنیا کی دولت بھی چاہتا ہے اور آخرت کا طلبگار بھی ہے۔ نتیجے کے طور پر اسے حکومت ملتی ہے نہ عزت ہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے۔ ایسے گروہ کے لیے دنیا اور آخرت میں خسارہ ہے۔ غور کریں تو یہ تیسرا گروہ سب سے زیادہ بھیانک ہے، تاریخ ا ن لوگوں کو معاف نہیں کرتی جوحق اور باطل کی پہچان سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیاکے اعلیٰ اور ارفع نصب العین کو علامتی اندا زمیں دیکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو ان کی باطن کی آئینہ دار نہیں ہوتی۔ سیدنا حسین ابن علیؓ کا کردار بالکل واضح اور عیاں ہے۔ معاشرے میں ایسے بہت کم افراد ہیں جوعملی طور حسینیت کے فلسفے کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنانے کی ہمت رکھتے ہیں۔ ہمارا عمومی رویہ غیرشفاف ہے، ہماری معاشرتی قدریں گدلے پانیوں کی جھیلوں طرح آلودہ ہیں۔ ہم بظاہرتو حسینیت کے پرچم بردار ہیں لیکن ہمارے دل دور حاضر کے یزیدوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ شہریار کا ایک شعر ہمارے رویوں کا عکاس ہے:
گزرے تھے حسین ابن علیؓ رات اِدھر سے
ہم میں سے مگرکوئی بھی نکلا نہیں گھرسے
مردوں کے اس معاشرے میں مصلحت کیش لوگوں کوسیدہ زینب الکبریٰؓکے کردار سے روشنی کشیدکرنے کی ضرورت ہے۔ سیدۃ النساء فاطمہؓ کی یہ بیٹی ہماری نسائی تاریخ کی سب سے مضبوط شخصیت ہے۔ میدان کربلاکی شدت ہوکہ شام کا تکلیف آثار سفر۔ یزیدکے دربار کی پیشی کے دوران خطابت کا جواہر پارے ہوں یا پردیس کی مشکلات، سیدہ زینب الکبریٰؓ کی زندگی سے خواتین کے ساتھ ساتھ مرد بھی سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ سیدہ زینب الکبریٰؓ کو اپنے اشعارمیں مجید امجد نے یوں خراج تحسین پیش کیاہے:
یہ فاصلوں کی طنابیں، یہ منزلوں کے خیام
بپا فلک بہ فلک ہیں مقدروں کے خیام
مگرترے لیے تھا، ہائے اک وہ دن ، وہ پڑا
وہ بن ِ وہ ریت ، وہ لاشے ،وہ بے کسوں کے خیام
جہاں پہ سایہ کناں ہے ترے شرف کی ردا
اکھڑ چکے ہیں ترے خیمہ افگنوں کے خیام
گزرے تھے حسین ابن علیؓ رات اِدھر سے
Jul 28, 2023