افغان طالبان 20 برسوں کی طویل جدوجہد اور ناقابل یقین مزاحمتی جنگ کے بعد 15اگست 2021ء کو کابل میں داخل ہوئے تو ان کی اس کامیابی پر دنیا بھر کے دفاعی تجزیہ نگار ان میں امریکا کے جنگی ماہرین بھی شامل تھے یہ سب ششدررہ گئے ۔ امریکی سی آئی اے اپنی حکومت کو رپورٹ کرچکی تھی کہ کابل پر قبضہ افغان طالبان کے لیے اتنا آسان نہیں ہوگا۔ انھیں اس کے لیے افغان نیشنل آرمی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ امریکی فوج کے انخلاء کے بعد بھی افغان طالبان کو کابل پر قبضہ کے لیے مزید چھ ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ سی آئی اے کی رپورٹ کی بنیادی وجہ مئی2021ء سے افغانستان کے مختلف صوبوں پر قبضہ کے لیے افغان طالبان کی طرف جاری پیش قدمی تھی۔ وہ کسی بھی صوبائی دارالحکومت پر قبضہ سے پہلے شہر سے باہر افغان فوج کی چوکیوں پر قبضہ کرتے۔ اردگرد کے قصبات و دیہات کا کنٹرول اس اندازہ سے حال کرتے کہ شہر کی آبادی محصور ہو کر رہ جاتی۔ شہر میں موجود افغان فوج کچھ روز تک مزاحمت کرتی اور پھر یا تو ہتھیار وں سمیت افغان فوج کے ساتھ آملتی یا ہتھیار پھینک دیتی۔15اگست 2021ء تک افغان طالبان افغانستان کے 34صوبوں میں سے 28 کا کنٹرول حاصل کر چکے تھے۔
پوری دنیا کے لیے یہ خبر بھی ناقابل یقین تھی کہ افغانستان میں امریکی ونیٹو افواج کی ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی چھاؤنی بگرام بیس کو امریکی افواج نے 5جولائی 2021ء کی شب افغان فوج کی کمانڈ اور اشرف غنی کی حکومت کو اطلاع دیے بغیر اپنا مضبوط ترین قلعہ اس انداز سے خالی کیا کہ اندر تین ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کا جدید ترین اسلحہ بغیر کسی چوکیدار کے موجود تھا۔ جس میں جنگی ہیلی کاپٹروں کے علاوہ بکتر بند گاڑیاں ، ٹرک ، جیپیں اور صندوقوں میں بند ایسے ہلکے خودکار ہتھیاروں کی بھر مار تھی جنھیں استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی تھی۔ بگرام ایئر بیس کے اندر گھپ اندھیرا اور مرکزی دروازے بند تھے۔ دو گھنٹے بعد قریب سے گزرنے والے مقامی افغانیوں کے لیے بگرام بیس میں اندھیرا انتہائی حیران کن تھا۔ انھوں نے چند کلو میٹر دور موجود افغان فوجیوں کو اس امر کی اطلاع دی تو انھوں نے بھی اسے افواہ یا مذاق سمجھا۔ تاہم بگرام بیس پر بار بار فون کرنے کے بعد وہاں سے کوئی جواب نہ ملنے پر 2جیپوں پر سوار چند افغان فوجی موقع پر بھیجے گئے ۔ انھوں نے اطلاع دی کہ بگرام بیس کے اندر گھپ اندھیرا ہے اور لگتا ہے کہ امریکی فوج بیس خالی کر چکی ہے۔
یہ خبر اشرف غنی حکومت اور افغان فوج کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھی۔ ساڑھے تین لاکھ کی نفری پر مشتمل امریکی و بھارتی تربیت یافتہ افغان فوج حقیقی معنوں میں افغان طالبان کے ہاتھوں اپنی شکست 5جولائی 2021ء کو بغیر اعلان کیے تسلیم کرچکی تھی۔ جس وقت یہ ساری خبریں عالمی میڈیا کے ذریعے پاکستان عوام تک پہنچیں تو ان کا خوش ہونا فطری بات تھی۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور پاک فوج پر حملوں کی ابتدا اس وقت ہوئی جب 2002ء میں پاک فوج کے دستے اور کرزئی کے علاقے وادی تیرہ ، خیبر ایجنسی اور بعد ازاں وادی شوال میں داخل ہوئے۔ وہاں داخل ہونے سے قبل پاک فوج نے ان علاقوں کے قبائلی عمائدین سے طویل مذاکرات کیے تھے اور ان کی اجازت کے بعد ہی پاک فوج کے دستوں نے وہاں پہنچ کر چوکیاں قائم کیں۔ ان قبائلی علاقوں میں پہلے سے موجود چند غیر ملکی مسلح گروہوں نے رات کے اندھیرے میں پاک فوج کی چوکیوں پر حملے شروع کردیے۔
ابتداء میں دہشت گردی کی یہ کارروائیاں قبائلی علاقوں تک محدود رہیں۔ تاہم 2004ء میں بیت اللہ مسعود کی قیادت میں دہشت گردی کو پاکستان کے طول وعرض میں فعال کرنے کے لیے تحریک طالبان پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس میں قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کے علاوہ پاکستان میں شر عی نظام و قوانین کے نفاذ کے لیے ملک دشمن قوتوں کی طرف سے دیے گئے بیانیہ کو حقیقت سمجھتے ہوئے کچھ دین وار مقامی افراد بھی ٹی ٹی پی کا حصہ بن گئے ۔ خود کش دھماکوں اور دہشت گردی کی ملک بھر میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف پاک فوج نے ایک مربوط آپریشن کا آغاز کیا اور قبائلی علاقوں سے دہشت گردوں کاصفایا کردیا گیا تو دہشت گردوں کی بڑی تعداد اور ان کے کمانڈر فرار ہوکر افغانستان میں اپنے سرپرستوں کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہوگئے جہاں بھارت، افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت اور بعض دیگر پاکستان دشمن قوتوں نے پہلے سے دہشت گردوں کی تربیت گاہیں قائم کر رکھی تھیں ۔
افغان طالبان امریکی و نیٹو افواج کے خلاف اپنی مزاحمتی جنگ کے دوران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ٹی ٹی پی اور پاکستان میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہ بھارتی خفیہ ادارے را اور افغان این ڈی ایس کی سرپرستی میں افغانستان میں اپنے اڈے پر مستحکم کرچکے ہیں۔ لیکن وہ اپنی ساری توجہ امریکہ و نیٹو افواج کے خلاف اپنی جنگ کی طرف مبذول رکھنا چاہتے تھے ۔افغان طالبان کو یہ بھی علم تھا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردی کا طوفان برپاکر رکھا ہے۔ وہ اس دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان سے بھی آگاہ تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ٹی ٹی پی کے مختلف دہشت گرد لیڈران اور ان کے ساتھیوں کی افغانستان میں موجودگی کو افغان طالبان کی موجودہ عبوری حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کی قیادت اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کرنے سے قصداً گریزاں ہیں۔