سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارات نے آٹھ ارب ڈالرز کا ’’پاکستان ساورن فنڈز‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں سات خلیجی ریاستوں کے آٹھ ارب ڈالر منتقل کئے جائیں گے اور سال 2035ء تک اس فنڈ کے اثاثے ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اس سلسلہ میں سابق سعودی سفیر علی عواض العسیری کے ’’عرب نیوز‘‘ میں شائع ہونے والے مضمون میں ’’پاکستان ساورن فنڈز‘‘ کی تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ سابق سعودی سفیر کے بقول وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف کے دور میں پاکستان اور خلیج تعاون تنظیم (جی سی سی) کے مابین شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ شہبازشریف نے مشکل معاشی صورتحال میں اہم پالیسی فیصلے کئے اور انہوں نے سعودی عرب‘ یو اے ای اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور گہرے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا۔ العسیری کے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ جی سی سی کی سرکردہ معیشتوں نے پاکستان کی معاشی بحالی اور استحکام میں حصہ ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی‘ دفاعی اور سفارتی تعلقات کو ترجیح دی جبکہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکین وطن کا دوسرا گھر ہے۔
علی عواض العسیری کا کہنا ہے کہ میاں شہبازشریف کو گزشتہ برس اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اہم چیلنجز کا سامنا تھا۔ انہیں ڈیفالٹ کے دہانے پر موجود ملک ورثے میں ملا۔ اس تناظر میں جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری پاکستانی معیشت کیلئے اہم ہے اور پاکستان کی موجودہ سول اور فوجی قیادت جی سی سی ممالک کے ساتھ شراکت داری کو اہم سمجھتی ہے۔
سابق سعودی سفیر نے اس حوالے سے اپنے مضمون میں انکشاف کیا کہ پاکستان ساورن فنڈ بیورو کریٹک اور ریگولیٹری دقتوں سے پاک ہوگا۔ سات عرب ریاستوں کی جانب سے اس فنڈ میں 23 ٹریلین روپے (آٹھ ارب ڈالرز) منتقل کئے جا رہے ہیں۔ اس فنڈ کی آمدن بڑی سرمایہ کاری کیلئے استعمال ہو گی اور حکومت پاکستان خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر خسارے والے اداروں کی نجکاری اور لیزنگ پر کام کریگی۔ انکے بقول 2035ء تک پاکستان کی معیشت ایک ٹریلین ڈالرز ہو جائیگی۔ العسیری نے اپنے مضمون میں اس یقین کا اظہار کیا کہ شہبازشریف نے پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر استحکام کی راہ پر ڈال دیا ہے اور پاکستان کی معاشی بحالی کے امکانات میں اضافہ کر دیا ہے جبکہ پاکستان کے آرمی چیف اور دیگر فوجی حکام کی شمولیت سے تسلسل‘، شفافیت اور احتساب کی اہم ضمانت مل گئی ہے۔ یہ حقیقت پوری دنیا پر اظہرمن الشمس ہے کہ برادر پڑوسی ملک چین کے علاوہ مسلم برادر سعودی عرب‘، متحدہ عرب امارات اور قطر بھی ہر مشکل گھڑی میں اور قدرتی آفات کے موقع پر پاکستان کی معیشت اور متاثرین کی بحالی کیلئے اور اسی طرح پاکستان کی سلامتی کو درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوں سے عہدہ برأہونے کیلئے اسکے شانہ بشانہ کھڑے نظر آئے ہیں۔ برادر مسلم ممالک کا پاکستان کے ساتھ مسلم برادرہڈ والا جذبہ ہمیشہ کارفرما رہا ہے جو ہر شعبے میں باہمی تعاون کی بنیاد بنا ہے۔ اسی طرح برادر چین اور پاکستان کی دوستی علاقائی ترقی و تعاون کے تناظر میں ضرب المثل بن چکی ہے جسے اقوام عالم شہد سے میٹھی‘ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی سے تعبیر کرتی ہیں۔ اس خطہ میں بھارت کی شکل میں چین اور پاکستان کا دشمن بھی مشترکہ ہے جو امریکہ کی سرپرستی میں اور اسکی جدید ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کی معاونت کے ساتھ کبھی چین اور پاکستان کی سلامتی کو بیک وقت اور کبھی الگ الگ چیلنج کرتا ہے تو اسکے خلاف چین اور پاکستان کی دفاعی حکمت عملی بھی مشترکہ طور پر طے ہوتی ہے۔ اسی طرح برادر مسلم ممالک سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے نمائندہ علاقائی فورمز او آئی سی اور جی سی سی کے پلیٹ فارم پر بھی پاکستان کی جغرافیائی اوراقتصادی سلامتی کو درپیش چیلنجوں سے عہدہ برأ ہونے کی مشترکہ حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔
اس تناظر میں یہ مثبت سوچ بھی سامنے آتی ہے کہ خلیج تعاون کونسل‘، اسلامی امہ کانفرنس‘، شنگھائی تعاون تنظیم اور دوسرے نمائندہ علاقائی فورموں کو ہر فیلڈ میں باہمی تعاون کیلئے متحرک کیا جائے اور اپنے اپنے وسائل ایک دوسرے کی سلامتی کے تحفظ اور مالی‘، اقتصادی ضروریات پوری کرنے کیلئے بروئے کار لائے جائیں تو اس خطہ میں علاقائی طاقت کے ایک مضبوط و مربوط بلاک کی صورت میں علاقائی امن و استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس طرح عالمی مالیاتی اداروں کی جانب پھیلائے گئے کشکول بھی توڑے جا سکتے ہیں اور ترقی یافتہ معیشتوں والے ممالک کی بلیک میلنگ سے بھی باہر نکلا جا سکتا ہے جو بالخصوص مسلم دنیا کو منتشر اور تقسیم کرکے اپنا دست نگر بنائے رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
ہمیں آج جن گھمبیر اقتصادی مسائل اور اسلامو فوبیا سے متعلق جن چیلنجوں کا سامنا ہے‘ مسلم دنیا خطے کے دوسرے ممالک بالخصوص چین اور روس کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل طے کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری معیشتیں ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کے مدمقابل نہ آسکیں اور ہم مسلم دنیا کو توڑنے کے الحادی قوتوں کے عزائم ناکام نہ بناسکیں۔ آج آئی ایم ایف نے بڑی طاقتوں کے ایماء پر معمولی اور قسط وار قرضے کے عوض اپنی ناروا شرائط کے ذریعے ہماری معیشت اور عوام کی جو درگت بنائی ہے اور مہنگائی کے پے در پے جھکڑ چلنے سے عام آدمی کا آبرومندی کے ساتھ زندگی گزارنا بھی مشکل ہو گیا ہے‘، اسکے تناظر میں برادر مسلم ممالک کی جانب سے ہماری معیشت کی بحالی کیلئے پاکستان ساورن فنڈ کا قیام محض خوش خبری ہی نہیں‘ہماری معیشت کے اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کیلئے بہت بڑا سہارا بھی ہے جبکہ چین بھی بدستور ہماری پشت پر کھڑا ہے جس نے ہمیں دیئے گئے دو ارب ڈالر کے قرض کی وصولی دو سال کیلئے مؤخر کردی ہے اور شرح سود بھی پہلے والی برقرار رکھی ہے۔
بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں چین اور برادر مسلم ممالک کے ساتھ بگاڑ اور باہمی غلط فہمیاں پیدا کرنے کے راستے ہموار کئے گئے جبکہ آئی ایم ایف کی نئی کڑی شرائط کی بلا بھی پی ٹی آئی قائد ہی جاتے جاتے ہماری معیشت کے گلے میں ڈال گئے۔ اس مشکل صورتحال میں ملک کی نئی سول اور عسکری قیادت نے باہم مل کر ملک کے اقتصادی استحکام کی مربوط پالیسیاں طے کیں اور چین اور برادر مسلم ممالک کے ساتھ مثالی تعلقات کی راہ میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں دور کرنے کی مشترکہ کوششیں کیں جو آج بارآور ہورہی ہیں۔ پاکستان ساورن فنڈ کی بنیاد پر اب یقیناً ہمیں آئی ایم ایف کی غلامی سے بھی نجات مل سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں سابق سعودی سفیر نے میاں شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی مشترکہ کوششوں کو سراہا ہے تو ان کوششوں میں ملک کے اقتصادی استحکام کی جھلک بھی نظر آرہی ہے جو بہرحال سلطانیٔ جمہور کیلئے خوش آئند ہے۔