جناب مجید نظامی کی برسی :خراج تحسین اور دعائیں

 یادیں …محمودخان، کوئٹہ
balochistannice@gmail.com>
وطن عزیز میں ہمدردی اور محنت ولگن سے صحافت کی دنیا میں منفرد نام معمار نوائے وقت جناب مجید نظامی کا یوم وفات 26 جولائی کونہایت عقیدت واحترام سے منایا گیا۔ان کے چاہنے والوں نے انہیں مختلف انداز سے خراج تحسین پیش کیا۔ لکھاریوں نے لکھ کے تو عام شہری اور وطن دوست رہنمائوں نے فاتحہ خوانی اور قرآن خوانی کے اہتمام کرکے ان کی خدمات کو سراہا۔جناب مجید نظامی کی برسی پر ملک بھر میں ان کے چاہنے والوںنے ان کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھرمیں نوائے وقت کے دفاتر میں ان کے ایصال ثواب کے لئے کارکنوں نے فاتحہ خوانی اور دعائیں مانگیں۔
جناب مجید نظامی 26 جولائی 2014 کو اس دار فانی سے کوچ کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔جناب مجید نظامی نے وطن عزیز کی خدمات میں اور ان سے محبت میں اپنی پوری زندگی بمعہ اخبار کے سرف کر دی۔انہوں نے ساری زندگی نظریہ پاکستان کے لئے تحفظ اور اس کی بقاء کے لئے جدوجہد میں گزاری۔صحافت کے میدان میں بھی انہوں نے نظریہ پاکستان اور وطن عزیز کی محبت میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا۔آج بھی صحافت کی دنیا میں ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا اخبار نوائے وقت بھی نمائندگی کررہا ہے۔ جناب مجید نظامی نے ہر وقت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اورشاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے افکار کو لے کرہمیشہ ہمیشہ آگے چلے اور میڈیا مہم کے تحت دو قومی نظریہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے رہے۔ جناب مجید نظامی وطن عزیز کی بقائ، سلامتی اور ترقی وخوشحالی کے لئے ہمیشہ مصروف عمل رہے اور ان کا دل ہمیشہ وطن عزیز اور اس کے باسیو ں کے لئے دھڑکتا رہتا تھا ، اس لئے ہمیشہ اپنے فکر وافکار کے ذریعے اپنی پوری زندگی وطن عزیز کی خدمت میں گزار دی۔
یہ امر حقیقی ہے کہ اللہ کے نیک بندوں کو ہی شرف حاصل ہوتا ہے کہ وہ مقدس وقت میں اپنے اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ نیک انسان کی روح لمحات میں پرواز ہو جاتی ہے ،اللہ تعالیٰ اپنے بندوںکو مختلف حوالوں سے نوازتے ہیں ، زندگی میں شرف کے ساتھ ساتھ ان کی موت بھی مثالی ہوتی ہے۔ مجید نظامی صاحب ایک خوش طبع انسان تھے، وہ ہر کسی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آتے۔جفاکش اتنے کہ مسلسل کام کرنے کو ترجیح دیتے اورہمیشہ محنت و خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ایک ہمدرد اور غمخوار انسان جو کہ گھر ہو یا دفتر اپنے مہمانوں کی آمد پر خوش ہوتے۔ ان کے چہرے پر رونق چھا جاتی جب کوئی مہمان ان کے ہاں آتا۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمارے سینئر صحافی دوست آج تک جہا ں کہاں اوراپنے کالموں میں لکھتے رہتے ہیں کہ باس ہو تو مجید نظامی صاحب جیسا،جوبڑی شفقت سے رہنمائی کرتے تھے اور خبروں کی ٹپ بھی دیتے اور سکھاتے رہتے۔ انہوں نے اپنی زندگی کو ایک بامقصد بنا کر دوسروں کے لئے مشعل راہ بنائے رکھا۔وہ حساس طبیعت کے مالک تھے۔ وہ انسانیت نواز تھے۔وہ خواتین کے حقوق دینے کے بھی سخت حامی تھے۔ وہ قلم کی عصمت کو بھی ماں بہن کی عصمت کی طرح مقدس سمجھتے تھے۔
حمید نظامی صاحب کے بعد محترم مجید نظامی صاحب نے ' 'نوائے وقت'' کی باقاعدہ ادارت سنبھالی۔بڑی آب وتاب سے اپنے قلم کے توسط سے عوام کے حقوق کی جنگ لڑی، بڑے بڑے آمروں کے خلاف جدوجہد کی، اس حوالے سے جنگ میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔اپنی قلم کو علم بناتے ہوئے ہمیشہ نظریہ پاکستان اورجناب حمید نظامی صاحب کی محنت سے پھلنے پھولنے والے مشن کو ہمیشہ اولیت دیتے اور خود ہر وقت ان کے پیشِ نظر رہے۔جناب مجید نظامی صاحب نے حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو '' مادر وطن'' کا خطاب دیاتھا۔ پھر روزنامہ '' نوائے وقت'' میں کالم نویسی کے مختلف ادوار گزرے۔جنہوںنے ہمیشہ جمہوریت کو فوقیت دی۔اسی طرح شاعروں، ادیبوں، لکھاریوں نے جناب مجید نظامی صاحب کی شخصیت اور ان کی قومی خدمات پر اردو ، انگریزی ، پنجابی ودیگر زبانوں میں خوب لکھا کرتے تھے۔
جناب مجید نظامی نے اپنی زندگی میں ہی اپنی صاحبزادی محترمہ رمیزہ نظامی کو  نوائے وقت کی ادارت کی زمہ داری دیں۔ ان کے مقرر ہونے کے بعد وطن عزیز کے باشندوں حضرت علامہ محمد اقبال ، حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے افکار و نظریات کے نقش قدم پر چلنے والا واحد قومی اخبار کی محترمہ ایڈیٹر رمیزہ مجید نظامی بھی اپنے پرکھوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نظریہ پاکستان کو اولیت دے رہی ہیں۔اسی طرح نوائے وقت گروپ محترمہ رمیزہ کی سربراہی میں دن دگنی رات چگنی ترقی کی منزلیں طے کرتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نوائے وقت میں کام کرنے والوںسمیت نوائے وقت میں لکھنے والے کالم نگاروں کے ساتھ ایک بہتر رویہ رکھے ہوئی ہیں۔ مجید نظامی صاحب کی یہ خاصیت بڑی ا ہمیت کی حامل تھی کہ وہ مرگ وزند میں اپنے ورکروں کو سنبھالتے تھے اوران کی خیر یت دریافت کرنے بھی جاتے رہتے۔مصیبت کے وقت میں اپنے ورکرز اور ہمدرد دوستوں پر دست شفت رکھتے تھے۔ انہیں حوصلہ دیتے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کی  صاحبزادی محترمہ رمیزہ مجید نظامی انہی کے نقش قدم پر اسے نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے چلا رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن