’’ماہ محرم میں قبروں کی کتبہ سازی میں تیزی آجاتی ہے‘‘

فیصل عرفان(اسلام آباد)
ای میل:faisalirfanchohan@gmail.com
رابط نمبر:03369835428
مرزاعبدالرؤف جرال کے دادا مرزا مختار حسین قیام پاکستان سے قبل مقبوضہ کشمیر کی تحصیل راجوری کے ذیلدار،تایا مرزا سخی ولایت جرال راجوری کے ہی ایک گاؤں ایہتی کے نمبر دار اوروالد گرامی مرزا عبدالغنی برٹش آرمی میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔مرزا عبدالرؤف جرال کا خاندان 1947ء میںہجرت کرکے گاؤںچک جمال(دینہ)پہنچا۔مرزاعبدالرؤف جرال8جون1964ء کو نڑالی میں ہی پیدا ہوئے،1978ء میں مڈل سکول نڑالی سے آٹھویں جماعت پاس کی، 1983میں گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول میر پورآزاد کشمیر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں ایف اے اور بی اے تک تعلیم مکمل کی۔مرزا عبدالرؤف نے1982ء میں ہی میر پور میں صوفی محمدرشید(خلیفہ مجازحضرت خواجہ صوفی محمد نواز شاہ سہروردی) کی ماربل شاپ پر بیٹھنا شروع کردیا تھا۔ اس دوران1983ء میں پروجیکٹ منیجر لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی محکمے میں ورک چارج بھی بھرتی ہو گئے۔جون1984میںمقامی حکومت کا بجٹ تیار کر کے بطور سنیئر اکاؤنٹس کلرک  استعفیٰ دے کر نڑالی آگئے ۔مسلم کمرشل بینک میں بھرتی ہوئے تو 14دن بعد یہ نوکری بھی چھوڑ کر آگئے،ضلع کونسل میر پور ٹیکس آفیسر سکیل 10کی ملازمت اختیار کی لیکن دیانت اور بد دیانتی کے احساس میں یہ نوکری بھی چھوڑ دی ۔
نوکری کے دوران بھی آپ نے ماربل شاپ پر جانے کا معمول ختم نہ کیا تھا،صبح سویرے اٹھتے دکان پر جاکر کپڑے تبدیل کر کے صفائی وغیر ہ کرتے اور پھرکپڑے تبدیل کر کے نو بجے دفتر چلے جاتے،دفتر  سے واپسی پر دوبارہ دکان پر پہنچ جاتے،جولائی 1984ء میں مستقل بنیادوں پر ڈگری کالج فوارہ چوک میرپورکے بالمقابل صوفی محمدرشیدکی ماربل شاپ پر مستقل بنیادوں پر بطور شاگرد بیٹھ گئے۔کتبہ سازی کی لگن دل میں موجود تھی اسی لیے گھر والوں کو بھی بہت مشکل سے راضی کرلیا،25دسمبر1984کو گوجرانوالہ میں ناز ماربل ورکس کے نا م سے ڈیوڈھا پھاٹک میں اپنی دکان شروع کر دی۔فروری1990میں چکوال میں دکان ڈال لی،دسمبر 1990میں دولتالہ میں نئی مارکیٹ تعمیر ہوئی تو مین سٹاپ پر ایک دکان  اور حاصل کر لی اور 1991میں نیو راولپنڈی ماربل کے نام سے اپنا کام شروع کر دیا۔ محرم کے ایام کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے عبدالرؤف نے بتایا کہ ماہ محرم میں قبروں کی کتبہ سازی میں تیزی آجاتی ہے۔ انہوں نے بتایا ماربل پر خطاطی،کندہ کاری یا کھدائی یا انگریونگ صوفی محمدرشیدسے سیکھی ،اس دوران کتبوں پر کندہ کاری کیلئے 1984-85میں ایران سے ایک چھوٹی مشین بھی آئی  جس پر ایک چھوٹی سی بیٹری بھی لگی ہوتی تھی لیکن یہ کامیاب نہ ہوسکی اسکی وجہ یہ تھی کہ یہ ماربل یا کتبے پر زیادہ گہرائی میں کھدائی نہیں کر سکتی،پنجاب میں تیزاب کی مدد سے کتبوں پر کندہ کاری کی جاتی ،اس سے کام جلدی مکمل تو ہوجاتا ہے لیکن معیار برقرار نہیں رہتا اور ماربل یا پتھر کی عمر بھی کم ہوجاتی ہے ۔،قبروں کے کتبوں پراشعار کے سوال پر انکا کہنا تھا کہ زیادہ تر لوگوں نے ہمیں اختیار دیا ہوتا ہے کہ جو شعر اچھا لگے لکھ دیں ،بچوں کے کتبوں پر 
٭یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
خواتین کے کتبوں پر
٭آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(علامہ اقبال کی اپنی ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘لکھی گئی نظم،یہ بانگ درامیں شامل ہے)
اور مردوں کے کتبوں پر 
٭مرقد پہ تیری رحمت حق کا نزول ہو
حامی تیرا خدا اور خداکا رسول ہو
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ چند سالوں سے ماربل کی قبروں پر آیات لکھوانے کا رواج تقریباََ ختم ہوچکا،اب کتبے کے علاوہ باقی تمام قبر پر کچھ نہیں لکھا جاتا۔  معیاری قبراچھے پتھر میں جالی سمیت تقریباََ32ہزار میں تیار ہوجاتی،مزارات کی بڑی قبریں فاؤنڈیشن وغیرہ کی وجہ سے لاکھ سوا لاکھ ڈیڑھ لاکھ میں بھی تیار ہوتی ہیں،گرینائٹ کی قبر 15ہزار سے شروع ہوتی اور32ہزار تک جاتی،ایک پتھر میں ساڑھے گیارہ ہزار روپے بمعہ کتبہ،ایک پتھر میں ساڑھے 16ہزار،ایک میں ساڑھے 19ہزار،اچھے پتھر میں ساڑھے 28ہزار روپے میں بھی بن جاتی ہے۔کتبہ 2فٹ کا 15سو روپے سے شروع ہوتا اور 3ہزارروپے تک جاتاہے۔دولتالہ میں کام کا آغاز کیا تو ڈھوک حسو سے سامان لاتا تھا ،اس وقت ڈھوک حسو میں تین فیکٹریاں ہوتی تھیں،اب سامان مقامی سطح پر بھی مل جاتاہے ۔لکھائی میں استعمال ہونیوالے رنگوں کے بارے میں انکا کہنا تھا عام سفیدسیمنٹ اور کالا پینٹ استعمال ہوتا ہے لکھائی میں پوٹین کی شکل میں ،مٹی ریت اور دھوپ کی وجہ سے کتبے کا رنگ ختم جاتاہے ،بروقت صفائی ہوتی رہے تو پندرہ بیس سال تک رنگ ختم نہیں ہوتا ،کتبوں میںزیادہ ترسبز،سرخ،کالا رنگ زیادہ استعمال ہوتاہے،انہوں نے بتایا کہ کندہ کاری کیلئے ایک خاص ہتھوڑی ،چھینی و دیگر آلات درکار ہوتے ہیں جس کی انڈیا تک مارکیٹ ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن