پاکستان کی معیشت بدترین دور سے تو گذر رہی ہے لیکن ان حالات تک پہنچانے والے آج ایک دوسرے پر الزام دھر رہے ہیں۔ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ توانائی کا ہے۔ توانائی بحران ایک اژدہا کی صورت منہ کھولے کھڑا ہے اور یہ اژدہا سب غریبوں کو کھانے کے لیے بے چین ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دہائیوں سے پارلیمنٹ کا حصہ رہنے والے آج مہنگی بجلی اور آئی پی پیز کے معاہدوں پر بات کرنے کے لیے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آئندہ ماہ بجلی کے بل بھرنے کے لیے شاید پیسے نہ بچیں اور اگر بجلی کے بل جمع کروا دیں تو شاید کھانے پینے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ آئی پی پیز کی صورت میں جو ظلم اس قوم پر ہوا ماضی قریب میں سرکاری سطح پر اتنا پڑھا لکھا، سنجیدہ، الجھا ہوا، مصدقہ ظلم شاید ہی ہوا ہو کیونکہ جب آپ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہو رہے تھے اس وقت تو سب نے خاموشی اختیار کیے رکھی آج صرف غریب کی چیخیں ہی آسمان تک نہیں جا رہیں بلکہ کاروبار بھی بند ہو رہے ہیں، بجلی کا استعمال ایک اذیت بنتا جا رہا ہے اور اس سے بھی بڑا ظلم یہ ہے کہ اس ملک میں ان بدترین حالات اور مہنگی بجلی کے دور میں بھی ملک میں مخصوص طبقوں کو بجلی اور پٹرول مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ یعنی عام آدمی ٹیکس بھرے، ہزاروں روپے کا ٹیکس بجلی کے بل میں جمع کروائے اور مخصوص شعبوں کے اہم افراد کو مفت بجلی فراہم کر دی جائے۔ یہ کب سے ہو رہا ہے اور کب تک ہوتا رہے گا کوئی نہیں جانتا، آج کیوں عوام پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے کیوں حکومت آئی پی پیز کے غیر انسانی اور غیر حقیقی معاہدوں کو ختم نہیں کرتی یہ تو ایسے معاہدے ہیں کہ کسی کو بغیر کام کیے اور دفتر جائے بغیر ہی تنخواہ مل رہی ہے۔ یہ معاہدے کیسے اور کہاں انصاف کے تقاضوں پر پورا اترتے ہیں۔ جنہوں نے کاروبار کرنا ہے، لوگوں کو ملازمتیں دینی ہیں، معیشت کا پہیہ چلانا ہے انہیں تو بجلی میں رعایت دیتے ہوئے ان دیکھے مسائل سامنے آتے ہیں لیکن جنہوں نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے مفت بجلی لینی ہے ان پر تو کوئی قید نہیں ہے۔ اب سننے میں آیا ہے کہ وزارت توانائی نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے خلاف ملک گیر آگاہی مہم کے بعد ہنگامی طور پر پلان تیار کرتے ہوئے سرکاری، نیم سرکاری اداروں میں مفت بجلی کی سہولت ختم، جبکہ بیوروکریٹس، ججز اور پارلمینٹرینز سمیت سب کی مفت بجلی بند کرنے کی بھی تجویز ہے۔
میرا یہ خیال ہے کہ وزارت توانائی کو ایسی تجاویز تیار کرنے کے بجائے فی الفور سب کی مفت بجلی بند کر دینی چاہیے۔ کیا یہ ایسے حالات ہیں کہ وزارت توانائی اس معاملے میں لوگوں سے مشاورت کے بجائے فوری طور پر مفت بجلی بند کرنے کے احکامات جاری کرے۔ جہاں تک پارلیمنٹیرینز کا تعلق ہے انہیں تو سب سے پہلے اس معاملے میں سب سے پہلے ایک قدم آگے آنا چاہیے تھا، مفت بجلی کا استعمال بند کرنا چاہیے تھا اور ساتھ ہی ساتھ حقائق قوم تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی نبھانی چاہیے تھی۔ بدقسمتی ہے کہ منتخب نمائندوں نے نا صرف آئی پی پیز کو عوام کا خون چوسنے کی اجازت دی بلکہ اس ظلم کا حصہ بنے اور آج تک بن رہے ہیں۔ یہی حالات شعبہ انصاف اور بیوروکریسی کا ہے۔ یہ سب کیسے قوم کے درد کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں جب یہ خود عام آدمی کی تکلیف کا باعث ہیں۔ انرجی ڈویژن کی خبریں رکھنے والوں کے مطابق دوسرے مرحلے میں مفت پیٹرول کی سہولت بھی واپس لینے کی تجویز بھی ہے۔مسئلہ مرحلہ وار مراعات ختم کرنے کا نہیں ہے مسئلہ فوری اقدامات، فوری فیصلوں کا ہے۔ ملک اس وقت شدید مالی دباؤ اور بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا ہے آپ کب تک غیر حقیقی معاہدوں، غیر انسانی معاہدوں کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ان معاہدوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مفت کی بجلی اور پیٹرول بند کریں۔
وہ تو بھلا ہو سابق نگران وزیر گوہر اعجاز کا جو آئی پی پیز معاہدوں سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے لائے ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے آئی پی پیز کیپسٹی چارجز کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ کیا ظلم ہے کہ جنوری دو ہزار چوبیس سے مارچ دو ہزار چوبیس تک ہر ماہ آئی پی پیز کو ایک سو پچاس ارب روپے کیپسٹی چارجز دئیے گئے ہیں۔ جن کمپنیوں کو 150 ارب روپے کی ادائیگیاں ہوئی ہیں ان میں سے آدھی نے صرف دس فیصد پیداواری صلاحیت پر کام کیا ہے۔ اعجاز گوہر کہتے ہیں کہ چار پاور پلانٹ نے ایک یونٹ بجلی نہیں بنائی لیکن ہر مہینے انہیں بھی ایک ہزار کروڑ روپے ادا کیے گئے۔
عوام کی جیبوں پر اس ڈاکے کا حساب کس سے لیا جائے گا، اس ڈاکے کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا، اس ظلم کا حساب کون لے گا۔ میری اعلیٰ عدلیہ سے ظلم کے اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی درخواست ہے۔ حکومت کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ برداشت کم ہو رہی ہے، زندگی مشکل اور عام آدمی کے وسائل کم ہوتے جا رہے ہیں ان حالات میں یہ نظام نہیں چل سکتا کہ عام آدمی کی جیب سے پیسے نکال کر افسران اور منتخب نمائندوں کو مراعات دی جائیں۔ یہ سلسلہ جلد از جلد بند ہونا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ متحد ہو کر ملک کو مسائل سے نکالنے کے لیے کام کریں۔
آخر میں سلیم کوثر کا کلام
میں خیال ہوںکسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
جو مری ریاضت نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
بے رحم حکمران، بے بس عوام، سنگدل بیوروکریسی!!!!!
Jul 28, 2024