’’میں بجلی ہوں، میں شعلہ ہوں‘‘

Jul 28, 2024

اللہ دتہ نجمی

ڈیجیٹل مردم شماری کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں غیر شادی شدہ افراد کی تعداد 4 کروڑ 25 لاکھ ہوگئی ہے۔ 2017ء میں یہ تعداد 3 کروڑ 73 لاکھ تھی۔ یوں گزشتہ 6 سالوں میں غیرشادی شدہ افراد کی تعداد میں تقریباً 52 لاکھ کا اضافہ ہوا یے۔ رپورٹ میں اِس اضافے کی وجہ تو نہیں بتائی گئی تاہم غالب امکان یہی ہے کہ اِسکی بنیادی وجہ انتہائی درجے کی بے روزگاری اور ہوشربا مہنگائی ہی ہوگی۔ یوں لگتا ہے کہ موجودہ حکومت نے بھی اپنی سابقہ تین حکومتوں کی اتباع میں مہنگائی اور بیروزگاری کے گراف کو سرعتِ رفتار اور پیشَہ وَرانَہ مہارت سے بامِ عروج پر پہنچانے کا مصمم عزم کیا ہوا ہے۔ موجودہ اور تین سابقہ حکومتیں کوئی نئی اور بہتر معاشی پالیسی دینے میں یکسر ناکام رہی ہیں۔ لے دے کے زور پٹرول، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے پر صرف ہو رہا ہے جس کو وہ آئی ایم ایف کی منشاء اور عوام کی قسمت میں لکھا سمجھ کر بڑھائے جا رہے ہیں۔بدھ کے دن گوجرانوالہ شہر میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر تلخ کلامی کے بعد بھائی نے بھائی کی اْس کی بیوی کے سامنے شَہ رَگ کاٹ کر اْسے زندگی کے تفکرات اور بل ادا کرنے کے جَھنجَھٹوں سے کلی طور پر آزاد کر دیا۔ اربابِ اختیار کو شاید کامل ادراک نہ ہو کہ بجلی کے بل سفید پوش طبقے کی پہنچ سے کس قدر باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ صارفین بھاری رقوم کے بلوں کی ادائیگی ناممکن ہونے کی وجہ سے واپڈا کے دفاتر کے چکر لگا کر قسطیں کرا رہے ہیں۔ قسطیں جمع نہ ہونے پر وہ گھر کے زیورات اور بچی کچھی چیزیں اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ ستمبر 2023ء کے اعدادوشمار کے مطابق 589 ارب روپے کی سالانہ (49 ارب روپے ماہانہ) بجلی چوری ہوتی ہے۔ یہ 49 ارب روپے بجلی چوری کا نقصان صارفین سے بجلی کے بلوں کے ذریعے ہر ماہ وصول کیا جا رہا ہے جبکہ صورتحال یہ ہے کہ آئی پی پی کے 25 پلانٹ ایسے ہیں جو کبھی چلے ہی نہیں مگر ان کو ادائیگیاں ہو رہی ہیں۔ 53 پلانٹ ایسے ہیں جو 10 فیصد کم کیپیسٹی سے بھی کم پر چلتے ہیں۔ کیپیسٹی چارچز پر اْٹھنے والے اخراجات 2000 ہزار ارب ہیں جبکہ صارفین سے 2200 ارب وصول کئے جا رہے ہیں۔ یوں کیپیسٹی ٹیکس اور دوسرے بہت سے ٹیکس عوام کی کیپیسٹی سے باہر ہوتے جا رہے ہیں۔ آجکل آئی پی پی پر 40 خاندانوں کی اجارہ داری کے تذکرے بھی زبانِ زدِ عام و خاص ہیں.
حکومت کی رٹ کا یہ عالم رہا ہے کہ مذکورہ رقم کی بجلی چوری روکنے اور بجلی چوروں کو کٹہرے میں لانے کی کوئی سنجیدہ اور اجتماعی کوششیں تینوں بڑی جماعتوں کی حکمرانی میں نہیں کی گئیں۔ تاہم 2018ء میں حکومت کی ہدایت پر ضلعی انتظامیہ اور پولیس نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہت سے بجلی اور گیس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا تھا جس کے بہت مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے تھے مگر نجانے کن مصلحتوں کو بنیاد بنا کر وہ آپریشن ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ یوں بجلی چوروں کو نشانہء عبرت بنانے کی بجائے پابندی اور دیانتداری سے بجلی کے بل جمع کرانے والوں کو تختہء مشق بنایا گیا اور ابھی تک یہ مشق تواتر سے دہرائی جا رہی ہے یہ بل قانون پسند صارفین سے وصول کرنا دراصل چوری اور چوروں کے آگے سرنڈر کرنے اور بل ادا کرنے والوں کو بجلی چوری پر اکسانے کے مترادف ہے۔ بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کے معاملے پر حکومتی عدم دلچسپی سے بہت سے سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ اسے بجلی چوروں کی در پردہ حمایت سے بھی تعبیر کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرے کوئی، بھرے کوئی کے مصداق یہ بھی ایک بہت بڑی ناانصافی ہے اور حکومت اِس ناانصافی کو دوام بخش رہی ہے۔ عوام کو میرٹ پر انصاف فراہم کرنا صرف عدالتوں کا ہی کام نہیں، حکومت کا بھی کام ہے۔ 
اِدھر آئی ایم ایف نے بھی خبردار کرنے کے انداز میں پاور سیکٹر سمیت دیگر ٹیکس وصولیوں پر کئے گئے حکومتی اقدامات کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے اور اپنی شرائط ہر قیمت پر پوری کرنے پر زور دیا ہے جبکہ محصولات تسلی بخش نہ ہونے پر منی بجٹ کے بارے میں سوچے جانے کے امکان کا بھی ذکر کیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زراعت پر ٹیکس عائد کرنے کی بھی بات کی ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی پر نئے ٹیکس عائد کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ زراعت پر ٹیکس لگانے کی تجویز بہت عرصے سے گردش میں رہی ہے مگر جاگیر دار طبقے کے سیاسی اثر و رسوخ اور انتظامی امور پر گرفت مضبوط ہونے کی بنا پر اس پر عمل درآمد کی کبھی نوبت نہ آ سکی۔ تب بین الاقوامی حالات بھی ملکی معیشت کو چلانے میں کافی حد تک سازگار رہے تھے۔ ماضی میں فصلوں پر آنیوالے اخراجات حال کے مقابلے میں خاصے کم ہوا کرتے تھے۔ اب بیج، کھاد، ادویات اور بجلی وغیرہ پر اٹھنے والے اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پھر بھی معاشی بدحالی کے اِس نازک دور میں فقط زرعی شعبے کی شرحِ نمو 6.25 فیصد بتائی جاتی ہے۔ اب چاہئیے تو یہ تھا کہ زراعت کی حوصلہ افزائی کی جاتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ایوب خان کے دور کے بعد کسی حکمران نے زراعت کی ترقی میں خاص دلچسپی نہیں لی۔ زراعت پر بجلی کا ٹیرف صنعت کے ٹیرف سے ہمیشہ 50 فیصد سے بھی کم رہا ہے مگر اِس وقت انڈسٹری پر ٹیرف 28.56  روپے جبکہ زراعت پر 41.02 روپے ہے۔ کمرشل بنیادوں پر استعمال ہونے والی بجلی کا ریٹ زراعت سے بھی کم ہو گیا ہے یعنی 36 روپے یہ ہونی بھی پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ اِمسال گندم، کپاس اور چاول کی فصلیں ریکارڈ اچھی ہوئیں مگر افسوس کہ کسانوں کو ریٹ اچھا نہ مل سکا۔ کسانوں کا مخصوص مزاج وکیلوں اور ڈاکٹروں کے برعکس دھرنا دینے کی صلاحیت سے محروم ہے جس کی وجہ سے حکومتیں ان کو اور ان کے مطالبات کو آسانی سے نظر انداز کر دیتی ہیں۔ زرعی ٹیکس عائد کرنے سے پہلے زراعت اور زراعت کے پیشے سے منسلک لوگوں کی بہتری کیلئے حکومت کم از کم بجلی ہی سستی کر دے تو بھی انکی اشک شوئی کے کسی حد تک سامان پیدا ہو سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں مہنگائی اور بجلی کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے پر 26 جولائی سے دھرنا شروع کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی نئے امیر کی قیادت میں اپنی شہرت یافتہ سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کرے گی۔

مزیدخبریں