غالب نے کہا تھا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
دنیا بھر کی خواتین کی ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں لیکن ان میں ایک اہم خواہش منظر نامے کی خوبصورتی کو ہر حد تک ممکن بنانا ہو تا ہے۔ گھر سے دفاتر تک گلیوں سے بازاروں اور اپنے اختیار میں ہر منظر تک ہر چیز کو قرینے سے رکھنا سنورنا اور سنوارنا خواتین کی فطرت کا حصہ ہے۔ گھروں کی حد تک تو یہ حقیقت ہر شہری کے سامنے ہوتی ہے لیکن ذرا اوپر دیکھیں تو جن دفاتر کا انتظام خواتین کے ذمے ہوتا ہے وہاں دوسری باتوں کو ایک طرف رکھیے وہاں کا ماحول بدل کر رہ جاتا ہے۔وسائل ہوں تو ہر چیز قرینے سے نظر آنے لگتی ہے۔ یہاں تک اس دفتر میں کام کرنے والے مرد حضرات بھی ایک خاص ڈسپلن میں نظر آنے لگتے ہیں۔ ایک لمحے کو سیاسی محاذ آرائی کو ایک طر ف رکھ کر دیکھیں تو محکموں اور پھر اس سے ذرا اوپر جائیں تو ہر جگہ یہی حقیقت اپنی پوری قوت سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ پنجاب میں صوبائی سطح کی ایڈمنسٹریشن ایک خاتون کے ہاتھ آئی ہے تو مہنگائی کے بعد سب سے زیادہ زور صحت و صفائی پر ہے اور وزیراعلی مریم نواز شریف کے خواہش کے مطابق ستھرا پنجاب کے تحت پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبہ بھر میں بیک وقت ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کا پائلٹ پراجیکٹ شروع کر دیا گیا ہے۔ مریم نوازشریف نے ڈپٹی کمشنرز کو فوری ویسٹ مینجمنٹ پر کام شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کے تحت ہر جگہ سے کوڑا کرکٹ اٹھایا جائے گا۔ گلی محلوں کی صفائی اور سپرے بھی ہوگا۔ وزیراعلی ویسٹ مینجمنٹ سسٹم پائلٹ پراجیکٹ کی خود نگرانی کریں گی۔ اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز کو ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی نگرانی کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے۔ وزیراعلی نے روزانہ صبح 5بجے سڑکیں دھونے کا حکم دیا ہے اور ڈپٹی کمشنرز کو ہسپتالوں، مراکز صحت اور سکولوں کی مسلسل مانیٹرنگ کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلی نے مین ہول کے ڈھکن غائب ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ سیف سٹی کیمروں کے ذریعے صفائی کی صورتحال کی مسلسل مانیٹرنگ کی ہدایت کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر ہر جگہ خود نہیں جاسکتے تو ٹیکنالوجی کی مدد سے نگرانی کریں۔ ایک وقت تھا کہ ڈی سی آفس کو بے جان بنا کر رکھ دیا گیا تھا جب کہ نئے دور کا سارا سسٹم ہی اس عہدے سے منسلک ہے۔
اسی حقیقت کے پیش نظر اب ڈپٹی کمشنروں کو زیادہ اہمیت بھی ملنے لگی ہے اورتوقع بھی کی جا رہی ہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر سکتے ہیں چنانچہ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے بھی یہی کہا ہے کہ میری گورننس کا ماڈل ڈپٹی کمشنر آفس کی مستعدی ہے۔ وزیراعلی نے ندی نالوں میں گندگی اور ملبہ ڈالنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی اور صفائی کا حکم دیا ہے اور صوبہ بھر میں ویسٹ مینجمنٹ ورکرز کی یکساں یونیفارم اور مشینری کی برانڈنگ کی ہدایت کے ساتھ واضح کیا ہے کہ کارکردگی بڑھانے اور بہتری کے لئے ویسٹ مینجمنٹ سسٹم آوٹ سورس کیا ہے تو اس کا نتیجہ بھی چاہئیے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجوہ حکومت کی گورننس کا دائرہ کار صوبہ بھر کی ہر گلی اور محلے تک وسیع ہوگا۔ حکومت کو ہر شہر، دیہات کے گلی محلے میں یہ انتظام نظر آنا چاہیے۔ کسی گلی محلے میں گندگی، گڑھے ، بند سٹریٹ لائٹس، آوارہ کتے نظر آنا ناکامی کے مترادف ہے۔ سڑکوں پر گڑھے دیکھ کر لوگ حکومت کو کوستے ہیں۔ صفائی کے لئے چارج کریں گے تو لوگ بہتر سروس کی توقع رکھیں گے۔ ڈپٹی کمشنرز پر کام کا پریشر ہے اور میرے اوپر عوام کی توقعات کا بوجھ ہے۔ مہنگائی کا خاتمہ اور صفائی میری ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
ڈیش بورڈ کے ذریعے ہر محکمے اور ضلع کی کارکردگی کو مانیٹرنگ کررہی ہوں۔ نشاندہی کے باوجود شکایات حل نہ ہونا افسوسناک ہے ، گلی محلوں میں سٹریٹ لائٹس کو فوری فنکشنل کیا جائے۔ بارشوں کے موسم میں محکموں کی کارکردگی تسلی بخش نظر آ رہی ہے۔ حکمران اختیارات لیتے ہیں میں نے اپنے اختیارات ڈپٹی کمشنرز کو سونپ دئیے۔ پنجاب میں کوئی بھی تعیناتی میرٹ کے سوا نہیں ہوتی۔ آئی سسٹم تشکیل دینے کے بعد ضلعی انتظامیہ کی پرفارمنس میں بہتری آ رہی ہے۔ پنجاب میں یہ سب کچھ ان حالات میں ہورہا ہے جب سیاسی محاذ آرائی عرو ج پر ہے۔ وہ موسم اطمینان کا تھا جو میاں نواز شریف کو یا پھر میاں شہباز شریف کو اپنی پہلی وزارت اعلی میں ملا تھا یا کسی وقت چوہدری پرویز الٰہی کو ملا تھا۔ وہ مریم نواز کو دستیاب نہیں ہے۔ سوشل مییڈیا کی صورت میں ایک محاسب ہر وقت میدان میں ہے ان حالات میں ایسی صورت حال پیدا کرنا ضروری ہے کہ یہ کہا جا سکے کہ پنجاب ترقی اور خدمت میں باقی تمام صوبوں میں آگے ہے اور لیڈ کر رہا ہے۔ ہم خدمت اور ترقی کے ریکارڈ قائم کریں گے تو اہم بات ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں خواتین نے مختلف حیثیتوں میں اپنی قابلیت اور اہلیت سے جگہ بنانی شروع کر دی ہے اور پورے منظر نامے کودیکھیں تو صورت حال خاصی حوصلہ افزا لگتی ہے۔
تاریخ میں پہلی بار جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائی کورٹ جیسی بڑی ہائی کورٹ کی چیف جسٹس بنی ہیں اور انہوں نے حکومت اپوزیشن اور تمام وکلا کا اعتماد بھی حاصل کر لیا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ تمام صوبوں نے اس بار جتنی بڑی تعداد میں خواتین کو اہم عہدے دئے ہیں یہ بھی معاشرے میں خواتین کی اہمیت کو تسلیم کئے جانے کی طرف اشارہ ہے۔
پنجاب میں وزیر اطلاعات کا عہدہ ایک خاتون عظمی بخاری کو دینے کے بعد وفاق میں بھی یہی صورت حال ہے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن روبینہ خالد کے بعد اب عنبریں جان کو وفاقی سیکرٹری اطلاعات جیسی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اپوزیشن کی اہم جماعت تحریک انصاف کو دیکھا جائے تو سیاسی کشمکش میں ان کی خواتین کو مردوں سے زیادہ حوصلے کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرنے پر داد دی جا رہی ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ہماری سیاست میں خواتین کو جعلی ویڈیو ز کے ذریعے بدنام کرنے اور ان کی حوصلہ شکنی کا رجحان اور اس کی تازہ مثال وزیر اطلاعات پنجاب کو نشانہ بنا کر سامنے آئی ہے لیکن اس کی اپوزیشن اور حکومت کی سطح پر ایک ساتھ مذمت حوصلہ افزا ہے۔پنجاب کو آبادی اور بہت سی دوسری وجوہات کے باعث آدھا پاکستان قرا ر دیا جاتا ہے۔ ہفت رنگ آبادی کے باعث یہاں کے حالات کو سنبھالنا اور پھر اس کے چہرے کو نکھارنا ایک بڑے چیلنج سے کم نہیں لیکن بات پھر وہی کہ گھر ہو یا صوبہ اس کو سنوارنے اور خوش رنگ بنانے کا چیلنج ایک خاتون کو ملا ہے تو یہ سب اس کی فطرت کے مطابق چیلنج ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صفائی کے چیلنجوں سے عہدہ برا ہونے کے ساتھ سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کو کم کرنا ہے لیکن اس کا تعلق وفاقی پالیسیوں اور بین الاقوامی فیصلوں سے ہے۔ قوم تو ہر سطح کی خوشی چاہتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب سیاسی محاذ پر بھی امن ہو۔میں اسی پس منظر میں ایک قومی ڈائیلاگ کو وقت کی ضرورت قرار دیتا آ رہا ہوں۔ تقسیم کی بجائے اتحاد اور اعتماد کی راہ اپنائی جائے تو باہر کی خوبصورتی اندر کی دنیا کو بھی بدل دیتی ہے۔ پنجاب میں وزیر اعلی عملی طور پر یہ ثابت کرنے کے لئے میدان میں ہیں کہ۔۔ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ۔۔۔ لیکن تصویر میں رنگ بھرنے کے عمل کو مکمل کرنے کیلئے مردوں کے ذمہ جو کام ہے وہ بھی تو سامنے آنا چاہیئے۔