تمام سیاستدان اس بات پر متفق ہیں کہ اقتدار کے مقابلے میں اپوزیشن کرنا آ سان ہے کیونکہ حکومت پر جس قدر دل چاہے تنقید کریں ،پارٹی پالیسی کے مطابق ایوانوں میں گرجیں، برسیں ،خبروں اور بریکنگ نیوز کی زینت بنیں اور حکومت جب دباؤ میں آ جائے تو انکار کرتے ہوئے بھی فلاحی منصوبے اور مفادات حاصل کر کے چند روز کے لیے سیز فائر کریں اور تھوڑا سکون کے بعد دوبارہ توپوں کا رخ حکمرانوں کی طرف کر دیں ،پچھلا حساب برابر، عوام بھی خوش اور پارٹی قیادت بھی راضی۔ ماضی کے سیاست دانوں کی تلاشی لے لیں ایک ڈھونڈیں گے تو ہزاروں مل جائیں گے، نام کسی کا نہیں لے رہا لیکن اگر ایسا نہ ہوتا تو نہ کبھی جنوبی پنجاب محروم دکھائی دیتا اور نہ ہی ایم۔کیو۔ایم اور بلوچستان کا رونا دھونا ہمارا مقدر بنتا، تمام ایم۔ این ایز، ایم۔پی۔ ایز اپنے اپنے حصے کی مراعات اور کوٹہ ہمیشہ سے لیتے ہیں۔ اگر کہیں چھوٹی موٹی ناانصافی تھی تو اسے دور کرنے کے لیے اٹھارہویں ترمیم لا کر صوبوں کی خود مختاری کا راستہ نکالا گیا۔ پھر بھی معاملات مسائل اور بحرانوں میں ضرورت کے مطابق کمی نہیں آ سکی جبکہ اقتدار کا ،،موج میلہ ،،بالکل مختلف ہے اس لیے اسی میلے کا حصہ بننا سب پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ 12 سالہ اقتدار کل کا مالک مرد حق ،ضیاء الحق بھی من مانیوں کے بعد اپنے اقتدار کے آ خری دور میں ٹی وی پر روتا اور یہ کہتا دکھائی دیا کہ ،،اقتدار پھولوں کی سیج نہیں، حقیقت میں کانٹوں کی مالا ہے،، پھر بھی اقتدار کے ڈھول سہانے۔ اسی لیے وزیرعلی پنجاب مریم نواز بھی تمام تر مشکلات و مراحل سے گزر کر ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پہلی خاتون تخت نشیں بنی ہیں۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں تلخ و شیریں واقعات کو فراموش کر کے اقتدار سنبھالتے ہی عوامی ریلیف کو اپنی بنیاد بنایا۔ صوبے اور عوامی فلاح کے لیے شب و روز محنت کر کے مختلف شعبہ جات بلکہ ہر شعبے میں مثبت اقدامات کیے۔ ان کی اس بھاگ دوڑ میں وسائل تو محدود تھے لیکن پیشرو میاں نواز شریف ،شہباز شریف اور محسن نقوی جیسے وزرائے اعلی کی کامیابیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ انہیں ہر صورت شہباز اور محسن نقوی سپیڈ سے آ گے نکلنا تھا۔ انہوں نے ہمت کی اور قسمت نے یاوری۔ مفت سولر پینل ،ای بائکس، کینسر ہسپتال، فری علاج، نوجوانوں کے لیے تعلیمی وظائف ،روزگار کے مواقع آ ئی۔ ٹی کی سہولیات اور آلودگی و موسمی تبدیلیوں سے نجات کے لیے صوبے کو ،،گرین ویڑن ،،کے تحت جلد دنیا کی طرح الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر منتقل کرنے کی منصوبہ بندی، سڑکوں اور بڑی شاہراہوں کی معیاری بحالی ، سب سے بڑی بات غریبوں کی ہنگامی طبی امداد کے لیے ایئر ا یمبولنس۔۔لوگوں کا خیال تھا کہ یہ عوامی منصوبہ غریبوں کے نام پر اشرافیہ کی سہولت کے لیے کارگر ثابت ہوگا لیکن وزیراعلی نے افتتاح سے پہلے ہی میانوالی کی حلیمہ بی بی کی فوری مدد کر کے لوگوں کی غلط فہمی دور کر دی۔ تاہم مخالفین الزامات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور جب تک اقتدار میں ہیں پیٹتے ہی رہیں گے۔ یقینا جو کچھ کرتا ہے اور زیادہ کچھ کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ورنہ جو کچھ نہیں کرتے، وہ کمال کرتے ہیں۔۔ مثال وسیم اکرم پلس عثمان بزدار کی ہے۔ چند روز خبروں میں پائے گئے پھر دو مرتبہ نیب میں بھی حاضر ہوئے۔ اب کوئی نہیں جانتا کہاں ہیں؟ کیسے ہیں؟ خوش قسمت انسان ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی یاد نہیں اور حکومتی نظروں سے بھی اوجھل ہیں۔ ایسے میں ان کی ایک تصویر منظر عام پر آ ئی ہیجس میں وہ دریا کنارے پانی کی موجوں سے کھیل رہے ہیں۔ چند منچلوں کی رائے ہے کہ موصوف سابق خاتون اول بشری بی بی کے تعویز پر وزیراعلی بنے تھے۔ ان کی خاموشی، معصومیت اور کارناموں پر مرشد خوش تھیں اور اب بھی ہیں ،اس لیے ان کے موکلوں نے عثمان بزدار کو اپنے حصار میں لے لیا کوئی ان کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔ خود اور کپتان کو اس لیے محفوظ نہیں بنا سکیں کہ کمبخت حکمرانوں اور خفیہ والوں نے انہیں سکون سے ،،چلا،،کاٹنے نہیں دیا ورنہ سب اچھا ہو جاتا۔
وزیراعلی مریم نواز کو بھی اپنی کارکردگی پر بڑا اطمینان تھا لہذا انہوں نے اپنی سو روزہ کارکردگی اشتہاری مہم کے تحت عوامی عدالت میں پیش کر دی۔ مخالفین ابھی تک اس پروموشن مہم کا جائزہ لے کر کیڑے نکالنے میں مصروف ہیں تاہم عام تاثر یہی ہے کہ اگر یہ کارکردگی 50 فیصد بھی درست ہے تو بھی ماضی کے حکمرانوں سے بہتر ہے جبکہ دوسرے صوبے بھی مریم کی طرز پر عوامی ریلیف کے منصوبوں کی پیروی میں کوشاں ہیں۔ کون کتنا کامیاب ہوتا ہے یقینا ایسا وسائل اور مسائل کے حوالے سے مثبت منصوبہ بندی کرنے سے ہی پتہ چلے گا۔ فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اور صوبوں کے وسائل بے قابو آ بادی کا طوفان ہڑپ کر رہا ہے۔ وسائل میں اضافہ برسوں کی منصوبہ بندی اور اجتماعی کوششوں سے ہوتا ہے لیکن آ بادی میں اضافے کو انفرادی کوششوں سے بھی روکا جا سکتا ہے۔ اس خواہش کو پورا کرنے کیلئے ہمیں حکومتی سطح پر شرح خواندگی میں بھی خاطرخواہ اضافہ کرنا ہوگا۔ پنجاب میں مریم نواز نے ،،فیملی پلاننگ،، کے حوالے سے بھی خصوصی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ بظاہر مریم نواز اپنے ویڑن کے مطابق فی الحال بڑی حد تک کامیاب ہیں لیکن عام لوگوں کا خیال ہے کہ جب تک بجلی اور مہنگائی کا بندوبست نہیں کیا جائے گا عوامی اعتماد بحال نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے دوست امین اقبال کھوکھر کی بات ہی سن لیں فرماتے ہیں مریم کے 100 روز کی کارکردگی کا بڑا شور ہے لیکن میرے نواسے، نواسی کہتے ہیں آ نٹی نے بڑے بڑے کام تو کر دیے، بچوں کا ایک چھوٹا سا کام نہیں کر سکیں، لاہور کا چڑیا گھر اپ گریڈ ہو گیا مگر اس میں ایک ہاتھی نہیں آ سکا، کیوں؟۔ اب بچوں کو کون بتائے کہ وہ ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اسلام آ باد ،،چڑیا گھر ،،کا ہاتھی ایک رضاکارانہ تنظیم کے دعوے پر عدالتی حکم پر خطیر رقم خرچ کر کے ،،کمبوڈیا،، بھجوا دیا گیا تاکہ اس کی تنہائی کا دکھ ختم کیا جا سکے، کوئی نہیں جانتا کہ جنگل کے ہاتھیوں نے اس،، شہری ہاتھی،، کو برداشت بھی کیا کہ نہیں، لیکن ہمیں یہ پتہ ہے کہ بچوں کی تفر یح ’’اسلام آ باد چڑیا گھر،، بند ہو گیا ہے؟؟؟امید قوی ہے کہ اگر یہ پیغام وزیراعلیٰ پنجاب تک پہنچ گیا تو وہ معصوم بچوں کا یہ چھوٹا سا مطالبہ ضرور پورا کرینگیکیونکہ بچے غیر سیاسی ہوتے ھیں۔
مریم نواز کے سو دن اور ایک ہاتھی
Jul 28, 2024