پنجاب کے محکمہ اطلاعات کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سید اقتدار علی مظہر سرگودھا سے تبدیل ہوکر لاہور آگئے اور پریس لاز برانچ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ مظہر صاحب بہت باغ و بہار شخص تھے، بات بات پر قہقہے لگانا اُن کی شخصیت کا حُسن بن گیا تھا، میری خیریت پوچھنے کے بعد فرمانے لگے، ’’آپ کو معلوم ہے کہ میں پریس لاز برانچ میں آگیا ہوں‘‘… میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں! مجھے معلوم ہے‘‘… مظہر صاحب نے فرمایا، ’’میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘ میں نے گذارش کی، ’’مجھے ’’خدمت‘‘ کے نام سے اخبار شائع کرنے کا اجازت نامہ (DECLARATION) دے دیں‘‘۔ اُنہوں نے فرمایا، ’’ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں درخواست دے دیں یہاں سے منظوری مل جائے گی‘‘ اور قہقہوں کے درمیان یہ گفتگو اختتام کو پہنچی۔
دو چار روز کے بعد میں نے سات روزہ ’’خدمت‘‘ شائع کرنے کیلئے باقاعدہ درخواست اور ڈیکلریشن فارم دفتر ڈپٹی کمشنر میں پہنچا دئیے اور یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد بالکل بُھول گیا کہ میں نے اخبار شائع کرنے کی اجازت کے حصول کے لئے کوئی درخواست دی ہوئی ہے۔
میں اُس زمانے میں گوالمنڈی کے کُوچہ اسمٰعیل حسین میں حاجی برکت علی صاحب کے نو تعمیر شدہ مکان میں رہتا تھا، میرے گھر میں ٹیلی فون کی کوئی سہولت نہیں تھی، چپراسی دوپہر کا کھانا لینے کے لئے گھر گیا تو میری اہلیہ نے پیغام دیا کہ گوالمنڈی تھانے سے دو پولیس والے آئے تھے، آپ کا پوچھ رہے تھے، جب میں نے بتایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں تو اُنہوں نے کہا کہ جب وہ گھر آئیں تو اُنہیں گوالمنڈی تھانے بھیج دیں۔ میں یہ پیغام سُن کر پریشان ہوگیا اور کھانا کھانا بھی بُھول گیا۔ میں نے پریشانی کے عالم میں خواجہ صادق کاشمیری کو فون کیا اور یہ ساری روداد سنا کر ان کی مدد کا طالب ہوا، خواجہ صاحب نے تسلی دی اور گوالمنڈی تھانے فون کرکے مجھے حقیقت حال بتانے کا وعدہ کیا۔ چند لمحوں بعد ٹیلی فون کی گھنٹی بجی، لائن پر خواجہ صاحب تھے اور ساتھ ہی اُن کے قہقہے، ’’یار جمیل! تم نے کوئی اخبار ’’خدمت‘‘ کے نام سے شائع کرنے کے لئے درخواست دے رکھی ہے؟‘‘… ’’جی ہاں خواجہ صاحب‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’بھئی وہ خفیہ پولیس والے تمہارے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں تم پانچ بجے شام گوالمنڈی تھانے جاکر اے ایس آئی غلام نبی کو مل لو، میرا نام لے لینا اس کے پاس‘‘۔ ’’بہت مہربانی خواجہ صاحب!‘‘ میرے پاس شکریہ کے لئے مناسب الفاظ نہیں، خواجہ صاحب نے ایک بڑی پریشانی دور کردی، ورنہ تھانہ گوالمنڈی میں طلبی سے میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
میں شام کو پانچ بجے تھانہ گوال منڈی میں حاضر ہوا اور مختلف کمروں میں ڈھونڈتا ہوا اے ایس آئی غلام نبی کے پاس جا پہنچا جو ایک چارپائی پر سورہا تھا، میں نے آواز دے کر اُسے جگایا اور بتایا کہ مجھے خواجہ صادق کاشمیری نے آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ کے دو سپاہی کوچہ اسمٰعیل حسین میں میرا پوچھنے میرے گھر گئے تھے۔ غلام نبی چارپائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا، سرہانے سے ایک دو فائلوں میں سے میری فائل نکالی اور چُھوٹتے ہی مجھ سے دریافت کیا کہ کیا میرا پیپلز پارٹی سے کوئی تعلق ہے؟ میں نے کہا، ’’میرا ہر جماعت سے تعلق ہوسکتا ہے سوائے پیپلز پارٹی کے‘‘ یہ سُن کر وہ بہت خوش ہوا اور فائل میں سے وہ کاغذ نکال کرمجھے دے دئیے جس میں میری سیاسی وابستگی، صحافتی تجربہ، مالی حیثیت اور یہ کہ کسی فوجداری مقدمہ میں مجھے کوئی سزا تو نہیں ہوئی، کے بارے میں سوالات تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں یہ فارم خود ہی پُر کردوں، سو میں نے اپنے متعلق یہ خفیہ معلومات اپنے قلم سے لکھ دیں اور فارم اے ایس آئی کے حوالے کردیا جنہوں نے اس پر اپنے دستخط ثبت کئے، تھانے کی مُہر چسپاں کی اور مجھے چائے کی پیالی پلاکر وہاں سے رخصت کردیا،سات روزہ ’’خدمت‘‘ کے توثیق شدہ ڈیکلریشن ایک ہفتہ بعد مجھے مل گئے، مجھے یاد آیا کہ میری سات روزہ ’’خدمت‘‘ کے نام سے ایک ڈیکلریشن لینے کے بعد خواجہ صاحب نے بھی سات روزہ ’’اداکار‘‘ کے نام سے ایک ڈیکلریشن حاصل کرلیا۔ آغا شورش کاشمیری کو تو اُنہوں نے یہی بتایا تھا کہ اگر ’’چٹان‘‘ پر کوئی اُفتاد پڑی تو یہ نام متبادل پرچہ نکالنے کے کام آئے گا جیسا کہ ایڈیٹر ’’چٹان‘‘ اور ’’ایشیا‘‘ کے مدیر ظہورالحسن ڈار کے مابین صحافتی جنگ کے دوران پنجاب حکومت نے دونوں جرائد چھ چھ ماہ کے لئے بند کردئیے تھے اور آغا شورش کاشمیری نے ’’چٹان‘‘ کی جگہ ’’عادل‘‘ شائع کیا تھا، لیکن ’’اداکار‘‘ آغا شورش کے کام تو نہ آیا البتہ جناب مجیب الرحمن شامی کی زیر ادارت شائع ہونے والے جرائد جب یکے بعد دیگرے بند کئے جانے لگے تو خواجہ صادق کاشمیری نے ’’اداکار‘‘ کا ڈیکلریشن بھی شامی صاحب کو مستعار دے دیا تھا۔(ختم شد)
خواجہ صادق کاشمیری
Jul 28, 2024