رضا کی حقیقت (۱)

سورۃ الا نعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے ‘‘۔( آیت :۱۱۹)۔ سورۃ الفتح میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے ‘‘۔(آیت:۱۸)
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایمان کا حقیقی ذائقہ اس نے چکھا جو اللہ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا ‘‘۔ 
رضا کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بندے سے راضی ہو جائے اور دوسری صورت یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ اس کی رضا پر راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ثواب ، نعمت اور کرامت عطا فرمائے۔ اور بندے کا راضی ہو نا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے سامنے اپنا سر جھکا لے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا بندے کی رضا سے افضل ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ توفیق نہ دے تب تک بندہ نہ ہی اس کی اطاعت کر سکے گا اور نہ ہی اس کی رضا پر قائم رہ سکے گا۔ 
بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے چاہے وہ عطا و بخشش ہو یا پھر رنج و تکلیف میں مبتلا ہو۔ بندہ مختلف احوال و کیفیات کے ورود میں مستقل مزاج رہے۔ چاہے وہ آتش ہیبت یا جلال حق سے جل رہا ہو یا پھر نور لطف وجمال سے بہرہ ور ہو رہا ہو۔ یہ دونوں صورتیں اس کے لیے ایک جیسی ہوں کیونکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کی طرف سے جو کچھ بھی ہے وہ درست ہے شرط یہ ہے کہ بندہ سچے دل سے اس پر راضی رہے۔ 
امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ کے حسن اختیار کے راز سے آگاہی حاصل ہو جائے وہ اس چیز کے علاوہ کسی چیز کی تمنا نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے پسند کی ہے۔ 
جب بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جاتا ہے تو ہر غم و اندوہ سے نجات مل جاتی ہے اور وہ غفلت کے پنجے سے آزاد ہو جاتاہے اس کے دل سے غیر کی فکر ختم ہو جاتی ہے اس لیے کہ رضا نجات کا سبب اور ذریعہ ہے جو شخص عطا کرنے والے سے عطا کو دیکھتا ہے اور اس کو جان سے قبول کرتا ہے تو اس کے دل سے مشقت اور تکالیف دورہو جاتی ہیں اور جو شخص عطیہ سے عطا کرنے والے پر نظر کرتا ہے وہ عطا میں رک جاتا ہے اور تکلف سے رضا کی راہ پر چلتا ہے اور تکلف میں تکالیف اور مشقت ہوتی  ہے۔ بندے کو حقیقی معرفت اس وقت نصیب ہو تی ہے جب بندہ معرفت میں صاحب کشف ہو جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن