امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کراچی تا چترال دھرنوں کا اعلان کردیا ہے جبکہ جماعت اسلامی کا ڈی چوک اسلام آباد کا دھرنا انتظامیہ کی افہام و تفہیم کے ساتھ لیاقت باغ راولپنڈی منتقل کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جلسے کی اجازت کی درخواست مسترد کئے جانے کے بعد اپنا احتجاج پیر 29 جولائی تک موخر کر دیا۔ پی ٹی آئی کے ترجمان عامر مغل کیبقول پارٹی کی مرکزی قیادت کو اعتماد میں لے کر احتجاج موخر کیا گیا ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے اعلان کردہ احتجاج کے پیش نظر وفاقی دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے اور ریڈزون کو سیل کر دیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے مطابق جماعت اسلامی کے 1160 کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ حکومت فسطائیت پر اتر آئی ہے‘ اسکے باوجود جماعت اسلامی کی قیادت نے تین مقامات پر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکے بقول پہلا دھرنا راولپنڈی میں دیا جائیگا جو اس وقت لیاقت باغ میں جاری ہے۔ دوسرا دھرنا زیرو پوائنٹ اسلام آباد اور تیسرا دھرنا چونگی نمبر 26 اسلام آباد پر دیا جائیگا اور مطالبات کی منظوری تک یہ دھرنے جاری رہیں گے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے متذکرہ سیاسی جماعتوں کے احتجاجی مظاہرے روکنے کیلئے اسلام آباد کے نادرا چوک‘ سرینا چوک اور ایکسپریس چوک پر کنٹینر لگا کر ریڈزون کو سیل کر دیا جبکہ جماعت اسلامی کے کارکن رات بھر یہ کنٹینر ہٹانے کی کوششیں کرتے رہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق جماعت کے پیش کردہ مطالبات پر حکومت اور جماعت اسلامی کی قیادت کے مابین مذاکرات پر اتفاق ہو گیا ہے اور مذاکرات کیلئے حکومت کی جانب سے تین رکنی کمیٹی قائم کردی گئی ہے جس میں امیر مقام اور طارق فضل چودھری بھی شامل ہیں۔
حکومتی ترجمان کے مطابق جماعت اسلامی کے دھرنے کیلئے لیاقت باغ کی جگہ مختص کردی گئی ہے۔ اگر یہ ریڈزون کی جانب بڑھیں گے تو حالات خراب ہونگے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے لیاقت باغ میں دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فارم 47 کی حکومت نے فسطائیت کی انتہاء کر دی ہے۔ اب عوام کا سیلاب آئیگا جسے کنٹینرز لگا کر نہیں روکا جا سکتا۔ ہمیں بجلی کے بلوں میں کمی اور آئی پی پیز سے چھٹکارا چاہیے‘ کپیسٹی چارجز کے نام پر عوام کو نچوڑا جا رہا ہے۔ ہم عوام کو ریلیف دلوانے کیلئے آئے ہیں جس کیلئے جماعت اسلامی کراچی سے چترال تک دھرنے دیگی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس چھاپوں اور گرفتاریوں کے باوجود جماعت اسلامی کے کارکن اسلام آباد پہنچے ہیں۔ ہم تھکے نہیں‘ اسی جذبے کے ساتھ موجود رہیں گے۔ آج بجلی کے بلوں کی وجہ سے بھائی بھائی کو قتل کر رہا ہے‘ اب پانی سروں کے اوپر سے گزر چکا ہے۔ تنخواہ دار آدمی برباد ہو گیا ہے۔ مڈل کلاس آخری ہچکیاں لے رہی ہے۔ بجلی کے بلوں نے صنعت کاروں کو صنعتیں بند کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ لوگ گھروں کی چیزیں بیچ کر بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔ گھروں کا کرایہ کم اور بجلی کے بل زیادہ ہیں۔
امیر جماعت اسلامی کے بقول حکومت ہماری آواز دبانے کیلئے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے اور میڈیا کو خرید رہی ہے۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ موجودہ حالات میں بھی حکومت نے اپنے انتظامی اخراجات میں 25 فیصد اضافہ کیوں کیا۔ ایک نجی تھرمل پاور کمپنی ایسی ہے جس کا ایک یونٹ 750 روپے میں پڑتا ہے۔ حکومت بتائے کون سی مجبوریاں ہیں جو وہ آئی پی پیز سے بات نہیں کرتی جبکہ کئی آئی پی پیز نے اپنی لاگت سے دس گنا زیادہ عوام سے نچوڑ لیا ہے۔ ایک طبقے کیلئے بجلی گیس فری ہے‘ یہ کیا مذاق ہے کہ 36 قسم کے ٹیکس بجلی کے بل میں لگا دیئے گئے ہیں۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے‘ بس 25 کروڑ عوام پر یہ ظلم بند کرو۔
یہ اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ حکومتی اقتصادی‘ مالی پالیسیوں کے باعث مہنگائی در مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام ملک کے سسٹم اور اپنے مستقبل کے حوالے سے آج جتنے مضطرب ہیں‘ کسی بھی عہد حکمرانی میں ایسا عوامی اضطراب نہیں دیکھا گیا۔ اگرچہ عوام کے استعمال کی ہر چیز کے نرخوں میں گزشتہ دو سال کے دوران تین سے چار گنا اضافہ ہوا ہے مگر بجلی کے بلوں نے تو عوام کی زندہ رہنے کی سکت بھی چھین لی ہے۔ ان بلوں میں شامل معلوم اور نامعلوم ٹیکسوں سے بھی عوام عاجز آئے ہوئے تھے اور احتجاج کے راستے ڈھونڈ رہے تھے جبکہ موجودہ اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا نیا بیل آئوٹ پیکیج لینے کی خاطر اسکی ہر کڑی شرط من وعن قبول کرلی اور ان شرائط کی بنیاد پر مہنگائی کے اٹھتے سونامیوں کا سارا رخ راندہء درگاہ عوام کی جانب کر دیا۔ اسکے برعکس حکمران اشرافیہ طبقات نے نہ صرف نئے ٹیکسوں اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کا بوجھ خود پر نہیں پڑنے دیا بلکہ وفاقی اور صوبائی میزانیوں میں اپنی پہلے سے حاصل مراعات بھی بڑھا لیں اور مزید مراعات بھی حاصل کرلیں جس پر مہنگائی کی چکی کے پاٹوں میں پسنے والے عوام کا اضطراب اور غصے کا اظہار فطری امر تھا۔
اسی ناآسودہ فضا میں جب بجلی کے نرخوں میں سلیبز کے حساب سے تواتر کے ساتھ بے انتہاء اضافہ کیا جانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بھی بجلی کے نرخ بڑھانے کا تسلسل برقرار رکھا گیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق عوام نے نجی تھرمل پاور کمپنیوں کا سارا کچا چٹھہ نکال کر اپنے غصے کا رخ انکی جانب موڑ دیا۔ اسی فضا میں سابق نگران حکومت کے وفاقی وزیر گوہر اعجاز نے پریس کانفرنس کرکے آئی پی پیز کی ساری تفصیلات عوام کے سامنے پیش کر دیں جنہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ یہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد عوام مزید حیرت زدہ ہوئے کہ ان میں سے بیشتر آئی پی پیز کو بجلی پیدا نہ کرنے کے باوجود کیپسٹی چارجز کی مد میں اربوں روپے دیئے جا چکے ہیں جبکہ یہ کمپنیاں لوڈشیڈنگ میں اضافے کا بھی موجب بنی ہیں۔ یہ کمپنیاں کس کس کی ملکیت ہیں اور انہیں باقاعدہ معاہدوں کے تحت کس طرح اور کیونکر نوازا گیا‘ یہ سارے معاملات میڈیا کی فعالیت کے آج کے دور میں کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے جن کے اللے تللوں کے برعکس عام آدمی بالخصوص تنخواہ دار‘ مزدور طبقات بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے خودکشی‘ خود سوزی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہی ہاتھوں قتل کرنے پر اتر آئیں تو ایسا معاشرہ کسی بڑے انقلاب کا ہی متقاضی ہو جاتا ہے۔ ایسا انقلاب مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کے خلاف ہی برپا ہوتا ہے جس کیلئے آزاد کشمیر کے عوام نے بجلی کے بلوں کیخلاف اپنی تحریک کامیاب بنا کر پہلے ہی فضا ہموار کردی ہے۔ اسی فضا میں جماعت اسلامی کی قیادت نے عوام کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے بجلی کے بلوں اور آئی پی پیز کو فوکس کرکے تحریک کا آغاز کیا ہے جبکہ پی ٹی آئی ان حالات کو اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جسے اپنے لیڈر عمران خان کی رہائی اور ان کی حکومت میں واپسی کے سوا عوام کے کسی ایشو میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اور اس پارٹی کے بھوک ہڑتالی کیمپ بھی اس مقصد کی تکمیل کے لیئے ہی لگائے گئے۔ سیاست اپنی جگہ مگر عوام آج حکومتی پالیسیوں کے نتیجہ میں جس حد تک بدحال ہو چکے ہیں‘ انہیں عملاً ریلیف دیئے بغیر حکومت کیلئے ان کا راستہ روکنا مشکل ہوگا۔ یہ سیاست کا نہیں‘ انسانی زندگیوں کی بقاء کا سوال ہے جو حکمران اشرافیہ طبقات نے اپنی سہولتوں اور مراعات کی خاطر اجیرن بنا دی ہیں۔