آج کل تقریبا ہر سرکاری وغیرہ سرکاری شعبہ جات میں شناختی کارڈ کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے کسی چیک پوسٹ پر یا کسی سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں داخل ہونے کے لیے شناخت کرنا اور شناخت کروانا دفاعی نقطہ نظر سے ایک بہت ہی اچھا عمل ہے یہاں تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی غرض کے لیے جانے والے مریضوں کی شناخت کرنے والی بات سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اب تقریبا لاہور کے ہر ہسپتال میں مریض کو پرچی لینے کے لیے اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے 18 سال سے کم عمر مریضوں کو پرچی حاصل کرنے کے لیے انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح شناختی کارڈ کی اہمیت میں مزید اضافہ کے لیے ہسپتالوں میں بھی شناختی کارڈ کو بہت ضروری قرار دیا جا چکا ہے سرکاری ہسپتالوں میں بہت سارے لوگ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے علاج معالجہ کی سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں اور شناخت کا عمل بالکل ہر لحاظ سے درست ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ہسپتال کے اندر مریضوں کے لیے شناختی کارڈ کا دیکھنا اور پھر اس کے بعد پرچی بنانا یہ بہت بڑے ظلم کی بات ہے لگتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو شناختی کارڈ دکھا کر پرچی حاصل کرنے والے قانون کو کسی بہت ہی عقلمند اور ذہین قانون دان نے اپنی عقل کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ایسا قانون بنانے پر ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ اس قانون دان کے کیا مقاصد ہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے قانون سے مریضوں کے لیے سوائے دشواری کے اور کچھ نہیں ہے اس نے ایسا کیوں کیا ہے یہ بھی ہم نہیں یہ قانون دان ہی بتا سکتا ہے جبکہ اس سے پہلے ہسپتالوں میں مریضوں کا فون نمبر لکھا جاتا تھا اور ایمرجنسی مریضوں کی پرچی پر ایڈریس بھی لکھا جاتا تھا جس سے نظام بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا لہذا اس قانون کو فوری تبدیل کرنا چاہیے ہسپتالوں میں مریضوں کو شناختی کارڈ دکھا کر پرچی حاصل کرنے والے سلسلہ کو ختم کر دینا چاہیے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرچی سسٹم کو ختم کر کے مریضوں کی سہولت کے لیے ٹوکن سسٹم ہونا چاہیے اس طرح اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آؤٹ ڈور پر ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر مریضوں کی لگی ہوئی لائنیں بھی ختم ہو جائیں گی اور مزید گزارش یہ ہے کہ تمام ہسپتالوں کو ڈبل شفٹ کیا جائے تاکہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو سہولت میسر ہو سکے۔
ان سرکاری ہسپتالوں میں پارکنگ کے لیے ٹوکن سسٹم کے چارجز کو بھی ختم کیا جائے موٹر سائیکل کار یا دیگر گاڑیاں کھڑی کرنے کے چارجز نہیں ہونے چاہیے صرف خالی ٹوکن ہونا چاہیے تاکہ گاڑیوں کی بھی حفاظت رہے۔ کیونکہ جن کے مریض وہاں ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں انہیں دن میں کئی بار بہت ساری ادویات اور دیگر اشیاء باہر سے لینی پڑتی ہیں اور ہر بار نیا ٹوکن ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ غریبوں کے ساتھ اس مہنگائی کے دور میں بہت بڑی زیادتی ہے۔
پرچی پر جو ادویات ڈاکٹر حضرات تشخیص کے بعد لکھتے ہیں ان کو لینے کے لیے سرکاری ڈسپنسری پر کم از کم مرد اور خواتین کی ایک سے چار پانچ مختلف قسم کی لائنیں لگی ہوتی ہیں ہر لائن میں تقریبا 60 سے 70 افراد کھڑے ہوتے ہیں باری آتے آتے شام ہو جاتی ہے اس دوران بہت سارے مریض بغیر ادویات لیے گھروں کو چلے جاتے ہیں لہذا اس کے لیے بھی ایک ٹوکن سسٹم ہونا چاہیے۔ جس سے لائنوں کا سسٹم بھی ختم ہو جائے گا اور ہر مریض کو ادویات بھی بروقت مہیا ہو جائے گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شوگر کے مریضوں کو ان ہسپتالوں میں انسولین فراہم کی جاتی ہے مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر بار انسولین لینے کے لیے مریض کی بائیو میٹرک (Biometric) اور تصویر لی جاتی ہے جبکہ یہ عمل صرف ایک بار ہونا چاہیے اور اس کے بعد جب مریض دوبارہ آئے اسے صرف پرچی پر انسولین فراہم کر دی جانی چاہیے۔
اس کے علاوہ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو چیک کروانے اور ادویات حاصل کرنے والی جگہوں پر مریضوں کے بیٹھنے کے لیے کوئی انتظام نہ ہے مریض شدید گرمی کے باعث کئی کئی گھنٹے تک کھڑے رہتے ہیں پہلے تو ان کی باری ڈاکٹر کے پاس نہیں آتی پھر ڈسپنسری سے دوائی لینے کے لیے بھی باری نہیں آتی کیونکہ وہاں پر بھی مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں یہ ظلم کی انتہا ہے وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ سے درخواست ہے کہ ہسپتالوں سے متعلق چند گزارشات کی جانب فوری توجہ دیں اور ان مریضوں کی دعائیں لیں۔