مریم نواز سے ہسپتالوں کے متعلق چند گزارشات

Jul 28, 2024

گلزار ملک

 آج کل تقریبا ہر سرکاری وغیرہ سرکاری شعبہ جات میں شناختی کارڈ کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے کسی چیک پوسٹ پر یا کسی سرکاری ونیم سرکاری اداروں میں داخل ہونے کے لیے شناخت کرنا اور شناخت کروانا دفاعی نقطہ نظر سے ایک بہت ہی اچھا عمل ہے  یہاں تک تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے مگر ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی غرض کے لیے جانے والے مریضوں کی شناخت کرنے والی بات سمجھ سے باہر ہے کیونکہ اب تقریبا لاہور کے ہر ہسپتال میں مریض کو پرچی لینے کے لیے اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑتا ہے 18 سال سے کم عمر مریضوں کو پرچی حاصل کرنے کے لیے انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس طرح شناختی کارڈ کی اہمیت میں مزید اضافہ کے لیے ہسپتالوں میں بھی شناختی کارڈ کو بہت ضروری قرار دیا جا چکا ہے سرکاری ہسپتالوں میں بہت سارے لوگ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے علاج معالجہ کی سہولت سے محروم رہ جاتے ہیں اور شناخت کا عمل بالکل ہر لحاظ سے درست ہے ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے مگر ہسپتال کے اندر مریضوں کے لیے شناختی کارڈ کا دیکھنا اور پھر اس کے بعد پرچی بنانا یہ بہت بڑے ظلم کی بات ہے لگتا ہے سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو شناختی کارڈ دکھا کر پرچی حاصل کرنے والے قانون کو کسی بہت ہی عقلمند اور ذہین قانون دان نے اپنی عقل کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے ایسا قانون بنانے پر ہمیں یہ تو نہیں پتہ کہ اس قانون دان کے کیا مقاصد ہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے قانون سے مریضوں کے لیے سوائے دشواری کے اور کچھ نہیں ہے اس نے ایسا کیوں کیا ہے یہ بھی ہم نہیں یہ قانون دان ہی بتا سکتا ہے جبکہ اس سے پہلے ہسپتالوں میں مریضوں کا فون نمبر لکھا جاتا تھا اور ایمرجنسی مریضوں کی پرچی پر ایڈریس بھی لکھا جاتا تھا جس سے نظام بالکل ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا لہذا اس قانون کو فوری تبدیل کرنا چاہیے ہسپتالوں میں مریضوں کو شناختی کارڈ دکھا کر پرچی حاصل کرنے والے سلسلہ کو ختم کر دینا چاہیے۔ بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ پرچی سسٹم کو ختم کر کے مریضوں کی سہولت کے لیے ٹوکن سسٹم ہونا چاہیے اس طرح اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آؤٹ ڈور پر ڈاکٹروں کے کمروں کے باہر مریضوں کی لگی ہوئی لائنیں بھی ختم ہو جائیں گی اور مزید گزارش یہ ہے کہ تمام ہسپتالوں کو ڈبل شفٹ کیا جائے تاکہ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو سہولت میسر ہو سکے۔

 ان سرکاری ہسپتالوں میں پارکنگ کے لیے ٹوکن سسٹم کے چارجز کو بھی ختم کیا جائے موٹر سائیکل کار یا دیگر گاڑیاں کھڑی کرنے کے چارجز نہیں ہونے چاہیے صرف خالی ٹوکن ہونا چاہیے تاکہ گاڑیوں کی بھی حفاظت رہے۔ کیونکہ جن کے مریض وہاں ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں انہیں دن میں کئی بار بہت ساری ادویات اور دیگر اشیاء￿  باہر سے لینی پڑتی ہیں اور ہر بار نیا ٹوکن ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ غریبوں کے ساتھ اس مہنگائی کے دور میں بہت بڑی زیادتی ہے۔
  پرچی پر جو ادویات ڈاکٹر حضرات تشخیص کے بعد لکھتے ہیں ان کو لینے کے لیے سرکاری ڈسپنسری پر کم از کم مرد اور خواتین کی ایک سے چار پانچ مختلف قسم کی لائنیں لگی ہوتی ہیں ہر لائن میں تقریبا 60 سے 70 افراد کھڑے ہوتے ہیں باری آتے آتے شام ہو جاتی ہے اس دوران بہت سارے مریض بغیر ادویات لیے گھروں کو چلے جاتے ہیں لہذا اس کے لیے بھی ایک ٹوکن سسٹم ہونا چاہیے۔ جس سے لائنوں کا سسٹم بھی ختم ہو جائے گا اور ہر مریض کو ادویات بھی بروقت مہیا ہو جائے گی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شوگر کے مریضوں کو ان ہسپتالوں میں انسولین فراہم کی جاتی ہے مگر انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر بار انسولین لینے کے لیے مریض کی بائیو میٹرک (Biometric) اور تصویر لی جاتی ہے جبکہ یہ عمل صرف ایک بار ہونا چاہیے اور اس کے بعد جب مریض دوبارہ آئے اسے صرف پرچی پر انسولین فراہم کر دی جانی چاہیے۔
  اس کے علاوہ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ ان ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو چیک کروانے اور ادویات حاصل کرنے والی جگہوں پر مریضوں کے بیٹھنے کے لیے کوئی انتظام نہ ہے مریض شدید گرمی کے باعث کئی کئی گھنٹے تک کھڑے رہتے ہیں پہلے تو ان کی باری ڈاکٹر کے پاس نہیں آتی پھر ڈسپنسری سے دوائی لینے کے لیے بھی باری نہیں آتی کیونکہ وہاں پر بھی مریضوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں یہ ظلم کی انتہا ہے وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ سے درخواست ہے کہ ہسپتالوں سے متعلق چند گزارشات کی جانب فوری توجہ دیں اور ان مریضوں کی دعائیں لیں۔

مزیدخبریں