تربیلا ڈیم کی سرنگ نمبر 2

یہ جون 1971ء کا واقعہ ہے میں فروری میں کوئٹہ سے اسلام آباد آگیا تھا، کیونکہ سینٹرل پبلک سروس کمیشن (جس کا نام مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن رکھ دیا گیا ہے) کمیشن نے مجھے ریسرچ آفیسر وزارت زراعت چن لیا تھا۔ اسلام آباد میں میرے کزن سید احسان حید روزارت خزانہ میں سیکشن آفیسر تعینات تھے۔ اس لیے مجھے نئے شہر میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ احسان حیدر کے بچے بچیاں اور میں اکثر اتوارکو کسی نہ کسی جگہ سیر کا پروگرام بنا لیتے تھے، کیونکہ ان دنوں صرف اتوار کو چھٹی ہوتی تھی۔ جون میں اتفاق سے اتوار کے ساتھ سوموار کو بھی چھٹی آگئی تھی۔ ان دنوں تر بیلا ڈ یم زیر تعمیر تھا۔ ہم سب منگلا ڈیم پہلے ہی دیکھ چکے تھے اس لیے اس دفعہ تربیلا ڈیم جانے کا فیصلہ ہوا۔ وہاں پر میرے ایک کزن عظیم احمد زیدی حبیب بینک میںمنیجرتھے۔ انھوں نے ریسٹ ہاؤس بھی بک کرادیا۔ ہم اتوار صبح روانہ ہوئے اور ایک سو تین کلو میٹر کا سفر ساڑھے تین گھنٹے میں طے کر کے دو پہر تک تربیلا پہنچ گئے۔ ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرنے کا بہترین انتظام تھا، کیونکہ یہ بالکل نیا تعمیر ہوا تھا اور کافی اونچائی پر واقع تھا۔ ایک طرف زیر تعمیر ڈیم دکھائی دیتا تھا دوسری جانب تر بیلا شہر نظر آتا تھا۔ دو پہر کا کھانا کھا کر ہم سو گئے۔ شام کو جب سو کر اٹھے تو موسم کافی حد تک بہتر ہو چکا تھا اس لیے شہر کا چکر لگا نے روانہ ہو گئے۔ چھوٹا سا قصبہ تھا لیکن نئی جگہ تو پھر نئی جگہ ہی ہوتی ہے۔ لہذا گھومنے اور نئی نئی چیزیں دیکھنے کا بہت مزہ آیا۔ رات کا کھانا بھی بازار میں کھایا اور دیر سے واپسی ہوئی۔ اگلے دن یعنی سوموار کو تر بیلا ڈیم دیکھنے صبح دس بجے جانا تھا اس لیے سب جلد سو گئے۔ احسان بھائی نے اپنے تعلقات استعمال کرتے ہو ہوئے تربیلا ڈیم میں ایک انجینئر کو بطور گائیڈ ہمارے ساتھ رہنے کا انتظام کر دیا تھا۔ وہ صاحب وقت کے بہت پابند اور ذمے دار انسان تھے۔ ٹھیک دس بجے ریسٹ ہاؤس پہنچ گئے اور اپنی بارہ سیٹوں والی پک آپ ساتھ لائے تھے۔ ہم جلدی جلدی تیار ہو کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ یہاں سے روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے تربیلا ڈیم پروجیکٹ کے بارے میں ہمیں تفصیلات سے آگاہ کیا کہ تربیلا ڈیم دنیا کا سب سے بڑا مٹی اور چٹانوں سے بنایا ہوا ڈیم ہے۔ یہ دریائے سندھ کی سطح آب سے ایک سو سینتالیس میٹر اونچا ہے اور جب یہ تیار ہوگا تو اس میں سینتیس مربع کلو میٹر پانی اسٹور کرنے کی گنجائش ہوگی۔ ڈیم سے جو جھیل ملے گی اس کا کل رقبہ ڈھائی سو مربع کلو میٹر ہو گا۔ اس ڈیم کی پانچ سرنگیں اور پانی کو روکنے کے لیے نو دروازے بنائے جائیں گے۔ اس ڈیم میں ایک سو انیس ارب کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کیا جاسکے گا۔ ڈیم بنانے کا مقصد آب پاشی کے لیے پانی کی فراہمی اور پن بجلی پیدا کرنا ہے۔ پن بجلی کی پیدواری لاگت تیل اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی لاگت سے بہت کم ہے۔ ڈیم کی تعمیری لاگت کا تخمینہ 2.85 ارب ڈالر ہے جو عالمی بینک دیگر بین الاقوامی ڈونرز کے ساتھ مل کر قرض کے طور پر فراہم کرے گا۔ ڈیم کی تعمیر 1968ء میں شروع ہوئی۔ 1976ء میں مکمل ہو جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ ڈیم کی پانچ سرنگوں پر کام تیزی سے جاری ہے اور امید ہے کہ 1974 ء  کے وسط میں ڈیم سے آب پاشی کے لیے پانی میسر آجائے گا۔ اس ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکا ایک اٹلی کی فرم کو دیا گیا ہے۔ ہمارے گائیڈ چونکہ ایک انجینئر تھے اس لیے بہترین انداز میں ڈیم کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے اور ہمارے سوالوں کے جوابات بھی مدل اور تفصیل سے دے رہے تھے۔ اسی دوران ہماری پک آپ پہلی سرنگ کے سامنے پہنچ گئی۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کی کل پانچ سرنگیں ہیں۔ پہلی تین سرنگوں پر جنریٹر کی تنصیب کی جائے گی جس سے بجلی پیدا کی جاسکے گی جب کہ آخری دو شنل چار اور پانچ صرف آب پاشی کے لیے استعمال ہوں گی۔

ہمارے گائیڈ نے گاڑی آگے بڑھائی تو میں نے خواہش ظاہر کی کہ میں ٹنل کے اندر جانا چاہتا ہوں۔ انھوں نے بہت خندہ پیشانی سے میری خواہش پوری کی اور ہم سب پہلی سرنگ میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے بتایا کہ سرنگ تقریبا آدھا کلو میٹر طویل ہے۔ میں کچھ دور چل کر واپس آگیا اور دوسری سرنگ میں داخل ہو گیا۔ گائیڈ نے کہا کہ تمام سرنگیں ایک جیسی ہیں۔ پھر بھی انھوں نے مجھے دوسری سرنگ میں جانے سے نہیں روکا اور وہ میرے ساتھ سرنگ نمبر دو میں چلتے رہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام سرنگوں کو لوہے کے گول فریم سے تیار کیا گیا ہے۔ کچھ دور چل کر میں نے دیکھا کہ لوہے کا فریم ختم ہو گیا ہے اور ہم چٹان پر چل رہے ہیں کوئی پچاس یا ساٹھ فٹ کے بعد دوبارہ لوہے کا فریم شروع ہو گیا اور ہم اس پر چلنے لگے۔ میں ایک دم رک گیا اور ان سے پوچھا کہ درمیان میں لوہے کا فریم کیوں ختم کر دیا گیا اور پھر کچھ فاصلے سے دوبارہ شروع ہو گیا ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ انھوں نے کہا سوال اچھا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس جگہ چونکہ پکی چٹان ہے اور پانی کے دباؤ کو برداشت کر سکتی ہے اس لیے یہاں لوہے کا فریم نہیں لگایا ہے، تاکہ لوہے کی بچت کی جاسکے۔ میں نے فوراً کہا کہ اربوں ڈالر کے ڈیم کی تعمیر میں پچاس یا ساٹھ فٹ کے لوہے کی فریم کی بچت کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ اگر خدانخواستہ انجینئرز کا اندازہ غلط ثابت ہوا اور پانی کے دباؤ سے چٹان ٹوٹ گئی تو پورا ڈیم تباہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے گائیڈ نے ایک زور دار قہقہ لگایا اور کہا کہ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ چٹان ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے، کیونکہ لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم کر لیا گیا ہے کہ یہ بہت مضبوط چٹان ہے اور پانی کا دباؤ آسانی سے برداشت کرلے گی۔ میں ان کے جواب سے مطمئن نہیں ہوا اور کافی دیر تک بحث کرتارہا کہ ماہرین بہت سخت غلطی کر رہے ہیں اور ذراسی لوہے کی بچت کی خاطر پورے ڈیم کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ وہ مجھے سمجھاتے رہے کہ اٹلی کی فرم کے انجینئر کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے کہ ڈیم کو خطرے میں ڈالیں۔ میں اپنے گائیڈ سے بار بار یہی کہتا رہا کہ میرے خیال میں انجینئر بہت غلطی کر رہے ہیں جو اتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں اور وہ بھی معمولی بچت کی خاطر ہمارے گائیڈ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور انھوں نے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں؟'' میں نے انھیں بتایا کہ میں وزارت زراعت میں ریسرچ آفیسر ہوں۔ انھوں نے کہا: اگر میں جو کہ انجینئر ہوں اور زراعت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، آپ کے کسی پروجیکٹ پر تنقید کروں اور رائے دوں کہ آپ ایسے نہیں، بلکہ ایسے طریقے سے تحقیق کریں تو آپ کے کیا تاثرات ہوں گے؟ کیا آپ میری بات مان لیں گے؟ اسی طرح آپ چونکہ انجینئر نہیں ہیں اس لیے سرنگ نمبر دو میں واقع پختہ چٹان کے بارے میں اندیشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پانی کے دباؤ کی وجہ سے سرنگ ٹوٹ جائے گی۔ جب کہ مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ مجبوراً مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑی۔ چونکہ ان کا رویہ کچھ تلخ ہوتا جارہا تھا۔ انھوں نے مجھ سے طنز یہ کہا کہ کیا میں باقی تینوں سرنگیں بھی دیکھنا چاہوں گا؟ اور مجھے بتایا کہ باقی تینوں سرنگ میں لوہے کا گول فریم مکمل لگایا گیا ہے۔ صرف سرنگ نمبر دو میں سخت چٹان کی موجودگی کی وجہ سے لوہے کا فریم مکمل نہیں لگایا گیا ہے۔ ہمارا ڈ یم کا دورہ بہت معلوماتی رہا۔ ہم نے پوراڈ یم مختلف جگہوں سے دیکھا اور یاد گار تصویریں بنائیں اور شام کو واپس اسلام آباد پہنچ گئے۔ اگلے روز بھی میرے ذہن سے یہ بات نہیں نکل سکی کہ ماہرین ٹنل نمبر 2 میں لوہے کا فریم مکمل نا لگا کر غلطی کر رہے ہیں۔ میں نے یہ قصہ اپنے کزن احسان بھائی کو سنایا۔ وہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے اور سمجھ دار تھے اور وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ انھوں نے ساری بات تفصیل سے سننے کے بعد کہا کہ بظاہر میرا خدشہ صحیح معلوم ہوتا ہے اور صرف تھوڑے سے لوہے کی بچت کی خاطر اتنا بڑا خطرہ لینے کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمیں اٹلی کے انجینئرز کی صلاحیتوں پر شک نہیں کرنا چاہیے، جب کہ ہم خود انجینئر نہیں ہیں۔ وقت گزرتا رہا۔ اگست کا مہینہ تھا۔ 21 تاریخ تھی اور سال 1974ء تھا۔ میں اپنی بیوی زرینہ کے ساتھ بیٹے افتخار کو جو چند ماہ کا تھا، گود میں لیے بیٹھا تھا اور ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ اپریل 1972ء  میں میری شادی ہو چکی تھی۔ نو بجے کا خبر نامہ شروع ہوا۔ اس وقت صرف ایک ہی چینل ہوتا تھا یعنی پاکستان ٹیلی وڑن۔ پہلی خبر یہ تھی کہ تربیلا ڈیم کی سرنگ نمبر 2 میں چٹان ٹوٹ گئی ہے اور ٹنل سے پانی چکر کھا کر گر رہا ہے اور ساتھ ہی چٹانوں کے بڑے بڑے ٹکڑے نکل رہے ہیں۔ خبروں میں یہ بھی بتایا گیا کہ تربیلا ڈیم پر ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا ہے اور ڈیم کے تمام دروازے کھول کر اسے خالی کیا جارہا ہے تا کہ چٹان کو ٹوٹنے سے بچایا جائے۔ میں یہ خبر سن کر پریشان ہو گیا اور احسان بھائی کے گھر پہنچ گیا۔ وہ قریب ہی رہتے تھے۔ جوں ہی میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ اور ان کی فیملی بھی بہت پریشان لگ رہے تھے۔ احسان بھائی نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ میرا خدشہ درست ثابت ہوا اور وہی ہوا جس کا خطرہ تھا۔ کافی دیر میں ان سے اس موضوع پر بات چیت کرتارہا۔ ہم اس بات پر پریشان تھے کہ اگر واقعی چٹان ٹوٹ گئی تو تر بیلا ڈیم پرخرچ کیے گئے اربوں ڈالر ضائع ہو جائیں گے۔ اگلے ایک ہفتے تک ٹی وی اور اخبارات میں ڈیم سے متعلق خبریں دی جاتی رہیں۔ ٹنل کے حادثے کی خبر ملتے ہی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اپنے متعلقہ وزیروں کے ساتھ تر بیلا پہنچ گئے اور بروقت کارروائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ اللہ کالاکھ لاکھ شکر ہے کہ چٹان مکمل طور پر تباہ نہیں ہوئی اور ٹنل نمبر 2 میں اسٹیل کا فریم مکمل لگوا کر ڈیم کو دو بار کھول دیا گیا۔ اس سارے کام میں کئی ماہ لگے اور اٹلی کی فرم کے زیر نگرانی یہ کام مکمل کیا گیا۔ مجھے بار بار یہ خیال آتا کہ کاش میں ان گائیڈ صاحب کو جو کہ انجینئر تھے، دوبارہ مل سکتا اور انھیں یاد دلاتا کہ میں نے جو باتیں کی تھیں، کاش وہ ان کو سنجیدگی سے لیتے اور اپنے حکام بالا تک اس ناچیزکے خدشات پہنچا دیتے۔

ای پیپر دی نیشن