ہر ملک کی ایک قومی، سرکاری‘ ملی اور دفتری زبان ہوتی ہے۔ اس ملک کی قوم اپنی زبان پر فخر کرتی ہے اور یہ زبان ہی اس ملک کی قوم کی شناخت ہوتی ہے۔ کوئی بھی زندہ اور با غیرت قوم اپنی زبان میں کسی دوسرے ملک کی زبان کی ملاوٹ برداشت نہیں کرتی کیونکہ کوئی بھی قوم اپنی علیحدہ شناخت جو کہ زبان کی وجہ سے ہوتی ہے کھونا نہیں چاہتی۔
تاریخ کی البم دیکھنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ایسی بے شمار قوموں کی زبانیں وقت کی دست برد سے ماضی کی دھول بن کر رہ گئی ہیں جن پر دوسری زبانیں مسلط کر دی گئیں یا پھر ان میں اختلاط پذیر کی گئیں۔
وطن عزیز کو معرض وجود میں آئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم اپنی قومی زبان اردو کو وہ جائز مقام تو نہیں دے سکے جس کی وہ حقدار ہے‘ البتہ اس میں انگریزی الفاظ کی ملاوٹ اندھا دھند کر رہے ہیں اوراس پر فخر کرتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر اللہ رکھا ساغر ہم میں کچھ لوگ زیادہ ہی انگلیشائے گئے ہیں کہ وہ ازراہِ فیشن اس قسم کے فقرے کہتے سنے گئے ہیں ’’یار اردو میں بات نہیںبنتی‘‘ ایسے لوگ اپنے آپ کو نام نہاد ’’ہائی جنٹری‘‘ میں شمار کرتے ہیں جن کی وفاداریاں پاکستان سے کم اور انگریزی حکمران سے زیادہ ہیں۔ یہاں ایک بات یاد آگئی جسے قارئین کی نذر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ایک صاحب کا پُتر رنگ کا خاصا گوراتھا۔ وہ اپنے پُتر کی تعریف میں اتنا آگے چلا گیا کہ اسے اس بات کا ہوش بھی نہ رہا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کے الفاظ کچھ یوں تھے۔
’’میرا پُتر رنگ کا اتنا گورا ہے کہ کسی انگریز کا پتر نظر آرہا ہے۔ ’’چنانچہ لگتا ہے کہ ہم بھی من حیث القوم اپنی انگریزی پسندی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ شاید انگریز بہادر خود بھی اپنے آپ کو اتنا پسند نہ ہو جتنا کہ ہمیں پسند ہے۔
ہر زندہ جاندار اور محترک زبان میں دیگر زبانوں سے اخذ و انجداب کا عمل جاری رہتا ہے اور اُردو زبان بھی اس دائمی و عالمگیر لسانی حقیقت سے مبرا نہیں۔ لاتعداد الفاظ انگریزی و دیگر زبانوں سے اردو کا حصہ بن چکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے اور لسانیات میں اس قدرتی عمل جذب و انجذاب پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ یوں تو ہر زبان اس عمل سے گزر رہی ہے اور بلا جواز طریقے سے اردو میں انگریزی الفاظ کو ٹھونسا جا رہا ہے وہ بلاشبہ بقول عبدالہادی احمد ’اردو زبان کو قتل کرنے کے مترادف ہے‘ بقول عبدالہادی احمد:
’’گزرے زمانے میں دودھ میں پانی ملانے والے کو گناہ کار کہاجاتا تھا ۔ زمانہ بدلا تو یہ گناہ گار فنکار کہلائے۔ اب یہ فنکار قسم کھا کر کہتے ہیں کہ انھوں نے دودھ میں پانی نہیں ملایا اور وہ بالکل سچ کہتے ہیں اس لیے کہ اب دودھ میں پانی کی بجائے پانی میں دودھ ملایا جانے لگا ہے۔ بالکل یہی حال ٹیلی ویژن پر میزبانی کرنے والے حضرات و خواتین کا ہے۔ وہ اردو میں انگریزی کی بجائے انگریزی میں اردو ملاتی ہیں۔ اردو کہیں کہیں محض کا، کی اور ہے تھا وغیرہ کی حدتک استعمال ہوتی ہے۔ صبح کے وقت روشن پاکستان نامی نشریات میںخواتین جس تیزی سے لباس میں بے باکی اور دوپٹے سے بے نیاز ہو کر آتی ہیں اس سے کہیں سرعت سے وہ قومی زبان کو بے لباس کرنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ کھانے پکانے کی ترکیب بتانے والی خواتین گوشت کی بجائے بیف، مٹن اور چکن کے الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ لہسن، پیاز، مرچ اور نمک کے بجائے انگریزی مترادفات استعمال ہوتے ہیں۔
یہ عادت لسانی جسے بلاشبہ اردو گوئی کے حوالے سے ایک مذموم حرکت کہنا چاہیے اس سے کچھ نہ کچھ تو محرکات ضرور ہوں گے۔ بھرپور غوروفکر کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ:
۱۔ یہ عمل ہماری غلامانہ ذہنیت کا غماز ہے۔
۲۔ ہم نے ترقی کی معراج صرف اور صرف انگریزی کو سمجھ لیا ہے۔
۳۔ ہم اپنے مغربی ثقافتی اور تہذیبی رشتے کو فراموش کر چکے ہیں۔
۴۔ اردو زبان کے ساتھ ایسے ناروا سلوک کے خوفناک نتائج سے ہم بے بہرہ ہیں۔
بقول ڈاکٹر نثار احمدقریشی، اردو زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ایک بھرپور تہذیب و ثقافت کی نمائندہ زبان ہے۔ اگر زبان کے بگاڑ کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے تو کیا ہماری آئندہ نسلیں اردو زبان کے اصل چہرے کو پہچان پائیں گی۔ لہٰذا اس مسئلے کی سنگینی کا نہ صرف ادراک بلکہ اس کا تدارک بھی کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کو روزمرہ کے مشاہدے کے حوالے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی انگریزی دان، کوئی فارسی دان یا عربی دان اپنی زبان میں گفتگو کرتے وقت کسی دوسری زبان کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اور صرف اپنی زبان کی مددسے ہی ابلاغ کے عمل کومکمل سمجھتا ہے تو ایسی مشکل صرف اور صرف اردو داں طبقے ہی کو کیوں محسوس ہوتی ہے۔
ہم اپنے قائد اور بانیِ پاکستان حضرت قائداعظم کے اس فرمان کو فراموش کر چکے ہیں کہ ’’پاکستان کی قومی زبان صرف اور صرف اردو ہوگی‘‘ اردو سے ہم رسمی اور زبانی محبت کا دم تو بھرتے ہیں لیکن عملاً دیوانے ہم انگریزی ہی کے ہیں۔ ہم انگریزی زبان، انگریز ی لباس استعمال کرتے وقت فخر محسوس کرتے ہیں۔ بڑے شہروں کے علاوہ کسی چھوٹے سے چھوٹے قصبے یا گائوں میں بھی حجام، پنساری، نانبائی، درزی اور دھوبی وغیرہ ڈھونڈنے سے نہیں ملیں گے البتہ ہیئر ڈریسر، باربر، جنرل سٹور، ریسٹورنٹ ، ٹیلر ماسٹر اورڈرائی کلینرز بآسانی مل جائیں گے۔
ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے نشر کیے جانے والے پروگراموں میں انگریزی کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے۔ شام سات بجے انگریزی میں ٹی وی کے نشر ہونے والی خبروں میں کیا مجال کہ ایک لفظ بھی اردو کا استعمال ہو۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اردو کی ترویج کے لیے جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی انگریزی الفاظ استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اردو اخبارات اور جرائد جو صرف اور صرف اردو زبان ہی پر مشتمل ہوتے ہیں ان میں بھی انگریزی کسی نہ کسی انداز میں ضرور شامل ہوتی ہے ۔ نام تو اردو اخبارات کے بھی انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔
میرے خیال میں اردو زبان میں اس طرح انگریزی کے استعمال سے ہم اپنا وقار اور اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔
اردو ہماری قومی زبان ہے ، ہماری پہچان ہے، اس کو ہر حال میں اولیت دینا ہوگی۔ یہ بھی نہیں کہ انگریزی کو فارغ کر دیا جائے البتہ اسے ثانوی حیثیت دینے میں کوئی حرج نہیں جس طرح بعض دوسرے ممالک نے کیا ہے۔
مثال کے طور پر ملائشیا میں ۱۹۶۲ء سے ملائی کو (جو کہ ملائشیا کی قومی زبان ہے) لازمی زبان قراردیا گیا ہے اور انگریزی کی حیثیت ثانوی ہو گئی ہے۔ ایسا کرنے سے ہمارا طالب علم بین الاقوامی معاشرے میں بھی معلومات کے لحاظ سے پیچھے نہیں رہے گا اور ساتھ ہی ساتھ اردو کے ذریعے موثر تعلیم بھی حاصل کر سکے گا۔
یاد ر ہے کہ جس طرح غذائی ایشیا میں ملاوٹ جسمانی صحت کے لیے مہلک ثابت ہوسکتی ہے بالکل اسی طرح اپنی زبان میں کسی غیر ملکی زبان کی آمیزش سے قوم کی ذہنی اور فکری صحت یقینی طور پر ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ہم احساس کمتری کا شکار ہوچکے ہیں۔ شاید ہمیں شروع سے یہ ہی بتایا گیا ہے کہ تم انگریزی زبان کے بغیر کوئی علم حاصل نہیں کرسکتے، دنیا میں ترقی نہیں کر سکتے اور تمھیں کوئی مقام نہیں مل سکتا۔ انگریزی زبان ہو یا مال اسے اپنائے بغیر تم کچھ بھی نہیں۔ تم وہی غلام رہو گے اور بقول اقبال:
اگر قبول کرے دین مصطفیٰؔ انگریز
سیہ بخت رہے گا مسلماں پھر بھی غلام
انگریز اور انگریزی زبان کے ہم اس حد تک عاشق ہیں کہ قومی زبان اردو میں بلاوجہ اس کی آمیزش کر دیتے ہیں۔
رات کو ۹ بجے ٹی وی سے اردو میں خبریں نشر ہوتی ہیں۔ ملک کا کوئی سربراہ یا کوئی اور بیرون ملک سے آیا ہوا نمائندہ اگر انگریزی میں تقریر کرتا ہے تو ہم اس کی انگریزی تقریر کا اقتباس من و عن اردو خبر نامے میں ٹھونس دیتے ہیں ، اتنی زحمت نہیں کی جاتی کہ اس کو اردو ترجمہ میں منتقل کر لیا جائے۔ شاید ہم یہ باتیں عوام تک پہنچانا ہی نہیں چاہتے۔ افسوس سے یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے موجود صدر صاحب انگریزی کے بغیر بات ہی نہیں کرتے۔ جب بھی قوم سے خطاب ہوتا ہے انگریزی زبان میں۔ آپ ذرا انصاف کر کے بتائیے کہ ان کے خطاب کو کون سمجھتا ہوگا۔ میرے خیال میں ۱۰ فیصد لوگ ان کے خطاب کو سنتے اور سمجھتے ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ خود کو احساس کمتری سے باہر نکالیں اور اپنے انداز فکر کو ایک آزاد اور خود مختار قوم کے شایانِ شان بنائیں۔ یاد رکھیے کہ جو قومیں احساس کمتری کا شکار ہو کر اپنی قومی زبان کا حلیہ بگاڑ لیتی ہیں ، تاریخ ایسی قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی۔
uuu