اسیر فرشتے

انسان کا وجود جب سے زمین پر آیا ہے۔ جرم بھی کسی نہ کسی شکل میں ہمارے اردگرد موجود ہے۔ کریمنلز مقدمات میں ملوث ملزمان کو ضابطہ فوجداری ایکٹ کی دفعہ 54کے تحت اندراجِ مقدمہ کے بعد ناصرف گرفتار کیا جاتا ہے بلکہ گرفتاری کے بعد انہیں جسمانی ریمانڈ اور تفتیش کے مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مقدمہ قابل ضمانت ہو تو ضمانت ہو جاتی ہے اور ناقابل ضمانت جرم کی صورت میں بعد از تفتیش و ریمانڈ پر انہیں جیل بھج دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں جیلوں کی تعداد 87جبکہ پنجاب میں 43ہے جس میں خواتین اور بچوں کی جیلیں بھی شامل ہیں۔ ملزم یا مجرم خواتین اور ایسے مجرم بچوں کے لیے، جن کی عمریں 18سال سے کم ہیں، الگ جیلوں میں رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں سزا کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔
چونکہ اسلام آباد کو کیپٹیل کا درجہ حاصل ہے اس لیے کسی صوبہ کو یہاں انتظامی اختیار حاصل نہیں۔ کیپٹیل کی اپنی پولیس ہے جو اسلام آباد پولیس کہلاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں یہاں ایک تھانے کی عمارت کو ڈسٹرکٹ جیل قرار دیا گیا۔ تاہم ابھی تک اس میں کسی قیدی کو نہیں رکھا گیا۔
جیل میں قید بچوں اور خواتین کی کہانیاں اکثر نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ کبھی منظر عام پر نہیں آتیں۔ نجی ٹی وی چینلز کے کیمرے بھی اس طرف نہیں جاتے۔ ہیومن رائٹس کی تنظیمیں بھی اْن کی حالت زار پر کچھ کہتی دکھائی نہیں دیتیں۔ جس سے حالات کی منظر کشی نہیں ہوتی۔ اور مسائل و مشکلات سے جڑی کہانیاں قصۂ پارینہ بن جاتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں جیلوں کے مختلف مسائل اور قیدی خواتین کو درپیش مشکلات کے حوالے سے بہت سی معلومات اکٹھی کر کے حقیقی سٹوریز کو اپنے فرض منصبی سمجھتے ہوئے منظر عام پر لایا۔ آج پھر ایسے حساس اور نازک موضوع کو زیر بحث لا رہا ہوں جو جیلوں میں مقید خواتین اور اْن کے ساتھ موجود بچوں سے متعلق ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پر ہمارے قوانین اور جیل رولز خاموش ہیں۔
بحیثیت جرنلسٹ اور بطور وکیل مجھے کئی ایسے کیسوں سے واسطہ پڑا ہے۔ میرے مشاہدے میں ہے کہ جو خواتین کسی فوجداری جرم میں سزا پاتی ہیں انہیں سزا کا عرصہ پورا کرنے کے لیے جیل کاٹنی پڑتی ہے۔ اکثر بچوں کو اپنی قیدی ماں کے ساتھ جیل آنا پڑتا ہے۔ سزا کے بعد قیدی خاتون کو لمبے عرصے کے لیے جیل رہنا پڑے تو اس دوران بچہ بھی ماں کے ساتھ ہی جیل میں رہتا ہے۔ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی ہے، سوچ سمجھ آنی شرو ع ہوتی ہے۔ تو بچہ جیل کے ماحول کو قریب سے دیکھتا ہے۔ جہاں زیادہ تر کریمنل کا بسیرا ہوتا ہے۔ بچہ جیل کے اس ماحول کو کیسے دیکھتا ہے؟ اس سے کیا سیکھتا ہے؟ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سب ہی کریمنل جیل میں ہوں گے تو بچہ کیا سیکھے گا اور جب وہی بچہ ماں کی سزا مکمل ہونے کے بعد ماں کی رہائی کے ساتھ جیل سے باہر آئے گا تو اْس کے ذہن پر کس نوعیت کے اثرات ہوں گے؟ کیا وہ ایک آزاد معاشرے کا مہذب شہری بن سکے گا۔ یا جیل کے ماحول سے جو کچھ سیکھا ہے۔ وہ اْس کی پیروی کرے گا اور کسی غلط راستے پر چل نکلے گا۔
ماہر نفسیات کے مطاق بچوں کے اذہان پر اردگرد کے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ بچے کی نشوونما جس ماحول میں ہوئی ہو، وہ جن حالات میں پروان چڑھا ہو ، بلوغت کی عمر تک وہ درپیش ماحول سے بہت کچھ اچھا بُرا سیکھ چکا ہوتا ہے۔
 پنجاب کی43 جیلوں میں مجموعی طورپر ایک ہزار32خواتین کے ساتھ 142ننھے معصوم بھی مقید ہیں۔ اور ناکردہ گناہوں کی سزا پا رہے ہیں۔ سنٹرل جیل لاہور میں 198قیدی خواتین ہیں جن میں 169خواتین کے مقدمات اندر ٹرائل ہیں۔ 27ایسی خواتین بھی ہیں جن کو مختلف مقدمات میں سزا ہو چکی ہے۔ 10خواتین ایسی ہیں جن کے ساتھ بچے ہیں،6میل اور 4فی میل۔ سنٹرل جیل گوجرانوالہ میں قیدی خواتین کی تعداد50ہے۔ جن میں 32کے مقدمات زیر سماعت ہیں جبکہ 17سزا یافتہ ہیں۔ ان میں جن کے ساتھ بچے ہیں اْن کی تعداد13ہے۔ یعنی 5بچے اور 8بچیاں۔ ڈسٹرکٹ جیل قصور میں 16قیدی خواتین ہیں جن میں 15کے مقدمات انڈر ٹرائل ہیںاور ایک کو سزا ہو چکی ہے۔ تاہم ان کے ساتھ کوئی بچہ نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ میں 292قیدی خواتین ہیں-22کے کیس زیر سماعت ہیں جبکہ 7سزا یافتہ ہیں۔ جن کے ساتھ بچے ہیں اْن خواتین کی تعداد 8جبکہ بچوں کی تعداد بھی 8ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ میں 51قیدی خواتین ہیں ۔43کے کیس انڈر ٹرائل جبکہ 8سزا یافتہ ہیں۔ 7ایسی خواتین بھی ہیں جو بچوں کے ساتھ ہیں ان میں 3بچے اور 6بچیاں ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل نارووال میں 2قیدی خواتین ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی بچہ نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل حافظ آباد میں 11خواتین ہیںجن میں ایک خاتون کے ساتھ 2بچے ہیں۔ دونوں بچے میل ہیں۔ سنٹرل جیل ساہیوال میں 14قیدی خواتین ہیں۔ دو ایسی خواتین بھی ہیں جن کے ساتھ4بچے ہیں۔ ایک بچہ میل اور دو فی میل ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل اوکاڑہ میں 20خواتین ہیں۔ دو خواتین ایسی بھی ہیں جن کے ساتھ5بچے ہیں۔ تین میل اور دو فی میل۔ ڈسٹرکٹ جیل پاکپتن میں 10قیدی خواتین ہیں جن میں کوئی ایسی خاتون نہیں جس کے پاس کوئی بچہ ہو۔ ڈسٹرکٹ جیل اٹک میں 11خواتین قید ہیں۔ 7خواتین ایسی ہیں جو بچوں والی ہیں۔ بچوں کی تعداد19ہے۔ جن میں تین بچے اور سات بچیاں ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل گجرات میں20خواتین قید ہیں ۔ 17کے مقدمات انڈر ٹرائل ہیں۔ تین سزا یافتہ ہیں۔ گجرات جیل میں کوئی ایسی خاتون نہیں جس کے پاس کوئی بچہ ہو۔ ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی میں 212قیدی خواتین ہیں جن میں 168کے مقدمات انڈر ٹرائل ہیں۔ 45کو سزا ہو چکی ہے۔ یہاں 34خواتین بچوں والی ہیں۔ بچوں کی تعداد44ہے۔ جن میں 24بچے اور 20بچیاں شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ سنٹرل جیل فیصل آباد میں کوئی قیدی خاتون نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں 17قیدی خواتین ہیں جبکہ دو کے پاس بچے ہیں۔ دونوں بچے میل ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 14قیدی خواتین ہیں جبکہ تین کے پاس بچے ہیں۔ تعداد چار ہے۔ ایک بچہ اور تین بچیاں۔ سنٹرل جیل میانوالی میں خواتین قیدیوں کی تعداد 8ہے۔ کسی کے پاس کوئی بچہ نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا میں18خواتین ہیں۔ صرف یک خاتون کے پاس ایک میل بچہ ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل شاہ پور میں 9خواتین ہیں۔ ایک خاتون بچے والی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل بھکر میں 2قیدی خواتین ہیں۔ کوئی بچے والی نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں کوئی قیدی خاتون نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل خانیوال میں بھی کوئی قیدی خاتون نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل وہاڑی میں 12خواتین ہیں تاہم اس جیل میں بھی کوئی بچے والی خاتون قیدی نہیں۔ وویمن جیل ملتان میں 61قیدی خواتین ہیں۔ 25کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ 31کو سزا ہو چکی ہے۔ 7خواتین ایسی ہیں جو بچوں والی ہیں۔ اْن کے ساتھ7بچے ہیں۔ 4میل اور 3فی میل۔ سنٹرل جیل بہاولپور میں 10قیدی خواتین ہیں۔ دو قیدی خواتین کے ساتھ دو بچے بھی ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل رحیم یار خان میں 12خواتین ہیں ، تاہم کسی کے پاس کوئی بچہ نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل لودھراں میں کوئی قیدی خاتون نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل بہاولنگر میں 9قیدی خواتین ہیں۔ ایک خاتون کے پاس ایک بچہ ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل ڈیرہ غازی خان میں 8خواتین ہیں ،کسی کے پاس کوئی بچہ نہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل مظفر گڑھ ، ڈسٹرکٹ جیل راجن پور اور ڈسٹرکٹ لیہ میں کوئی قیدی خاتون نہیں۔ 
عالمی قوانین بھی کہتے ہیں کہ قیدی مائوں کے ساتھ اْن کے چھوٹے بچے کو مقید نہیں رکھا جاسکتا۔ ایسی صورت حال ہو تو قیدی مائوں کے بچوں کو مائوں سے علیحدہ کسی بحالی سنٹر میں رکھا جا سکتا ہے۔ تاکہ جیل کا ماحول بچوں کے ناپختہ ذہنوں کو آلودہ نہ کر سکے۔ وہ جیل سے باہر آزاد فضاء میں اچھے مہذب اور قانون  پسند شہری بن سکیں۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...