تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ نون میں اتحاد تو ایک اچھی بات ہے، کیونکہ اتحاد کسی میں بھی ہو، اچھے نتائج لاتا ہے مگر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے جو ”حکومت ہٹاﺅ ملک بچاﺅ“ تحریک کا اعلان کیا ہے، وہ چلتے گھوڑے کو چھانٹا مارنے کے مترادف ہے۔ خدا خدا کر کے پہلی بار ملک میں کسی آمر کے اشارہ¿ ابرو کے خلاف ایک منتخب جمہوری حکومت اپنے 3 سال پورے کر چکی ہے اور اس طرح ملک کی زبوں حالی کے باوجود جمہوریت رواں ہے، ایوان ہائے جمہوریت کام کر رہے ہیں اور یہ حکومت اسی طرح اپنی مدت پوری کر لے گی تو ہی اگلے انتخابات کا موقع آئے گا۔ یہ جمہوری عمل اپنی کوتاہیوں کے باوجود چلنے دیا جائے تو یہاں دھیرے دھیرے چھانٹی ہوتی جائے گی کیونکہ ووٹر بہت مار کھا چکا ہے اور خاصا بیدار ہو چکا ہے اس لئے اگلے انتخابات زیادہ بہتر نتائج لا سکتے ہیں۔ یہ وہ روشن امکانات ہیں جو وطن کی ضرورت ہیں ۔ ایسے میں عمران خان کا یہ اعلان کہ ”حکومت ہٹاﺅ ملک بچاﺅ“ فاشزم ہے۔ خان صاحب نے چند روز پہلے بیان دیا کہ بھارت سے دوستی اور تجارت کرنی چاہئے۔ کیا وہ اپنی زبان بندی کا اعلان نہیں کر سکتے؟ وہ نہیں جانتے کہ جس بھارت نے ہماری شہہ رگ کو واگزار کئے بغیر اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر مذاکرات کا ڈھونگ رچا ررکھا ہے اس کے ساتھ روابط رکھنا، تجارت کرنا اور دوستی کی پیشکش کرنا حب الوطنی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ۔ نئی نسل اور بیشتر عوام عمران خان کو نئی مطلوبہ قیادت کی نظر سے دیکھتے تھے، مگر بھارت کے پریم میں ایک ہی بیان دے کر وہ کتنی پریم نگریاں اجاڑ بیٹھے، ہمیں قلق ہے کہ وہ کاش ایسا نہ کہتے اور اب بھی دل کو سمجھاتے ہیں کہ انہوں نے نہیں کسی اور نے ایسا بیان دیا ہوگا، اس دشمن کے بارے میں جو ہمارے خون کے چھینٹے اڑا کر ہمارے منہ پر مارتا ہے اور ہمارے چہرے پھر بھی لہو رنگ نہیں ہوتے۔ بہرصورت ہمارا مقصد تحریر یہ ہے کہ وہ مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر ڈرون حملے بند کرائیں، لوڈ شیڈنگ کا کچھ مداوا کریں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں سے نجات دلوائیں مگر وہ تو جگرِ امریکہ میں ٹھنڈک پیدا کر گئے۔ کیا وہ بھی امریکی آشیرباد کے محتاج ہیں، یقین نہیں آتا۔ آج اگر حکومت کو گرا دیا جائے یا اسے گھر کا رستہ دکھا دیا جائے تو جو افراتفری اور خلا ایک جمہوری عمل میں پیدا ہوگا وہ موجودہ برے حالات سے زیادہ تکلیف دہ یا مضرِ وطن نہ ہوگا۔ وہ ابھی تک آزمائے نہیں گئے، ان کے دامن پر کوئی دھبہ بھی نہیں مگر ہولی کے کچھ رنگ ان کو بے رنگ ضرور کر گئے، اور وہ ہولی کے رنگ یہ الفاظ ہیں کہ بھارت سے دوستی اور تجارت کرنی چاہئے۔ وہ کشمیر دلوا دیں پھر ہم بھارت کے ساتھ دوستی بھی کر لیں گے۔ تجارت بھی ایک طرف غاصب کی نیرنگی ستم ہے دوسری جانب اس سے پیار کی پینگیں، یہ بات تو نہ ہوئی امام دین کی شاعری ہوئی، بلکہ شاید امام دین بھی موجودہ حالات میں یوں گویا نہ ہوتے۔ دو کارنامے خان صاحب کے ایسے ہیں کہ وہ اگر ہمارا مقصد جان لیں، تو ان کے بیان کو حذف کر کے ان پر اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ ایک تو انہوں نے پاکستان کیلئے ورلڈکپ جیتا، دوسرے انہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال جیسا شفاخانہ کھول دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی نسل ان کی پیروکار ہے، کیا وہ نئی نسل کو بالی وڈ لے جائیں گے یا قائداعظمؒ کے آدرشوں کا رکھوالا بنائیں گے؟ موجودہ حکومت، بہت بری سہی، ناکام سہی، بے نام سہی مگر ہے تو جمہوری تسلسل کی کڑی۔ اگر یہ اپنی مدت پوری کر لے تو اگلے انتخابات کوئی بہتر حالات لے آئیں گے۔ ہاں ایک بات ہو سکتی ہے، کہ وہ روسو کی طرح امام خمینی کی طرح انقلاب لے آئیں تاکہ جھاڑو پھر جائے، نو من تیل بھی میسر آجائے اور پھر رادھا اس آنگن میں جی بھر کے ناچے۔ یہاں سے ایلیٹ کلاس ختم ہو جائے، لٹیرے بٹیرے بن کر اڑ جائیں، بیرون ملک پڑے اثاثے واپس آجائیں، پڑھی لکھی غریب ذہین جرا¿ت مند قیادت ابھرے، اور اگر وہ حکومت ہی کو گرانے میں عافیتِ وطن سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ تھوڑا پا کر بہت کچھ لٹا دینا کامیابی نہیں۔ وہ مختلف جماعتوں کے ساتھ مل کر ڈرون حملے بند کرانے، امریکہ سے خلاصی پانے، بھارت کو فکس اپ کرنے کی مہم چلائیں۔ وہ کشمیر کی بات کیوں نہیں کرتے، غاصبوں سے دوستی تجارت کی بات کیوں کرتے ہیں؟ وہ ایک قیمتی قومی اثاثہ ہیں آئندہ انتخابات میں حصہ لیں۔ ہم ساری نئی نسل اور پوری قوم سے کہتے ہیں کہ عمران خان کو ووٹ دو، خدا کرے ہماری یہ گزارش سنی جائے مگر وہ کبھی کبھی اپنے آپ کو بھی تنہائی میں سن لیا کریں۔