دوہزارچار سے دہشت گردوں کے خلاف شروع ہونے والے ڈرون حملے سینکڑوں بے گناہ خواتین، بچوں اوربوڑھوں کی زندگی لے چکے ہیں۔

پاکستان کے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کی منظوری سے امریکہ نے دوہزار چار میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ اب تک ہونے والے تین سو سے زائد حملوں میں تین ہزارافراد اپنی جان گنوا چکے ہیں، جبکہ سینکڑوں افراد ہمیشہ کے لئے معذوری کی زندگی گزاررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ہونے والے ان حملوں سے گھر، دکانیں، گاڑیاں، حجرے، مدرسے حتٰی کہ مساجد تک محفوظ نہیں ہیں۔ بغیر پائلٹ کے جہاز سے کئےجانے والے میزائل حملوں کے خلاف وزیرستان کے عوام نے بارہا احتجاج بھی کیا، مگر ان کی آواز اقتدار کے اونچے ایوانوں تک پہنچنے میں ناکام رہی۔ اس دوران حکومت نے امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کا صرف زبانی احتجاج اورمطالبہ کیا۔ تاہم ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پرڈرون حملوں کے خلاف ایک قرارداد پاس کی، جس پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں نیٹو افواج کی سپلائی روکنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ لیکن قرارداد پاس ہونے کے اگلے ہی روز امریکہ نے ایک بار پھر پاکستانی قبائلی علاقوں کومیزائل کا نشانہ بناکر پاکستانی پارلیمنٹ کی قراداد کی دھجیاں بکھیر دیں۔ جون کے وسط میں قبائلی افراد نے بے گناہ افراد کی شہادت کے خلاف ہڑتال کی اورہزاروں افراد نے جلوس بھی نکالا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اپنوں کی بزدلی اور بے حسی کی وجہ سے درجنوں جاسوس طیارے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی فضائوں میں پرواز کرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے تمام لوگ خوفزدہ حالت میں ہیں۔ قبائلی افراد نے حکمرانوں، ایمنسٹی انٹرنیشنل، چیف جسٹس آف پاکستان، اور اقوام متحدہ کے علمبرداروں سے ان میزائل حملوں میں دہشت گردی کے نام پر بے گناہ افراد کا قتل بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن