امن انسا ن کی پہلی خوا ہش اور تر قی کا پہلا زینہ ہو تا ہے چو نکہ اس کا دا رو مد ا ر گر دو پیش کے حا لا ت اور علا قے میں پا ئی جا نے والی طاقتو ں کے توا ز ن اور ما ئنڈ سیٹ پر ہو تا ہے لہذا کسی دوسرے کی کمزوری ، زیا د ہ طاقتو ر ہو جا نا یامسابقت کی دو ڑ میں شد ت جیسے عوا مل کا ابھر نا اس لا زاوا ل حسر ت کو سبو تا ژ کر دیتا ہے بر صغیر کی 65سا لہ تا ریخ میں تینو ں عوا مل فعال رہتے ہیں ۔ ابتد ا ءمیں ہندو ستا ن نے ہما رے نا کا فی وسائل کو ہما ری کمز و ر ی سمجھ کر ہم پر جنگ کشمیر مسلط کر دی۔ 1965میں ہمیں ایک مکمل جنگ میں دھکیل دیا ۔ 1971ءمیں ہما رے اند رو نی خلفشا ر اور بیرو نی طاقتو ں سے قو ت پا کر ہمیں جا رحیت کا سا منا کر نے پر مجبو ر کر دیا ۔ اسکے علا و سیا چن ہو ،کا ر گل، یا ہما رے دریا ﺅ ں کا پانی ، بھارت نے ہمیں گز ند پہنچانے کا کو ئی مو قع ہا تھ سے نہیں جا نے دیا ۔ ہمیں اپنی بقا ءکی خا طر عسکری مسا بقت میں اتر نا پڑ۔پچھلے دنو ں دانشو رو ں کے ایک فو ر م پر ’ ڈاکٹر وید پر تا پ وید ک “ چیئر مین کو نسل فا ر انڈین فا ر ن پالیسی “ کا خطا ب سننے کا موقع ملا ۔اب جس وقت ہماری نئی حکو مت بننے والی تھی او ر سینٹر ل ایشیا ءمیں کا فی تبدیلیا ں متو قع ہیں اس موقع پر ایسے جہا ند ید ہ شخص کی دوہفتے کی campaignبلا وجہ نہیں ہو سکتی ۔ اگر چہ ہما رے کچھ دانشو ر و ں نے اُسے عقل و دانش سے خالی اور مہم کو بے مقصد قر ا ردیاہے ۔ میں خطا ب کے دو را ن یا اسکے بعد اٹھا ئے گئے سوال و جوا ب اپنے ہم وطنو ں کے سا منے پیش کر نا چاہتا ہوں تاکہ آئند ہ کے پا ک و ہند تعلقا ت کو سمجھنے میں کچھ مدد مل سکے ۔ ڈاکٹر و ید ک نے کہا کہ ہما رے با ر ڈ رکے دو نو ں طرف ایک جیسے لو گ رہتے ہیں یہ لکریں ( با رڈر ) محبتوں کو نہیں روک سکیں ۔ جوا ب دیا گیا کہ یہ لکیر یں صدیوں کے ظلم ، بے انصا فی اور ایک نہ ہو نے کے سبب ذہنو ں میں ابھر تی ہیں اور پھر زمین پر لگا ئی جاتی ہیں ۔ ان کا احتر ا م کر یں تو ہی دونو ں طرف عافیت رہتی ہے ۔ جہا ں تک با رڈر کے دو نو ں طرف ایک جیسے لو گو ں کے بسنے کا تعلق ہے تو وہ رو ئے زمین پر ہر ملک کے با رڈر پر ایسا ہی ہو تا ہے ۔ڈاکٹر وید ک نے کہا کہ پا ک و ہند کو چھوٹے اور بڑے بھائی کا مائنڈ سیٹ اپنا نا چا ہئے ۔ جو اب دیا گیا کہ گزشتہ65سا ل سے پاک و ہند کے درمیا ن یہ رشتہ نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ قا بل نفر ت بن چکا ہے ۔ دو نو ں کو ہمسائے ہی بن کر رہنا چا ہئے دو نو ں ہمسا ئے ایک دوسرے کی چا ر دیو ا ر ی اور جذ با ت کا احتر ام کر یں۔ڈاکٹر صا حب کے بقو ل انھو ں نے بینظیر شہید کو بتا یا تھا کہ انکے نز د یک کشمیر یو ں کو مکمل آ زا د ی دینا ہی شا ئد مسئلہ کشمیر کا حل ہے اور دو نو ں ملکو ں کو اپنی اپنی فو جیں وہا ں سے نکا ل لینی چا ہیں بقو ل اُنکے ،وہ آ ج بھی یہی نظر یہ رکھتے ہیں ۔انھیں عر ض کی گئی کہ اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو انہیں وا پس جا کر اس آ پشن کو اٹھا نا چا ہئے ۔ اگر پاکستا ن نے پچا س ہز ا ر فوج لا ئن آ ف کنٹرول کے سا تھ لگا ئی ہو ئی ہے تو انڈ یا بھی اتنی ہی فوج وہا ںرکھ کر با قی سا ڑھے چھ لا کھ کو فو ر اً وہا ں سے نکال لے۔ اسکے بعد بتدریج دو نو ں اطرا ف سے فور سز کم کی جا سکتی ہیں انھو ں نے فرما یا کہ وہ یہ نہیںکر سکتے کیو نکہ اس طر ح کشمیر میں بھار ت کا کنٹر و ل مکمل طو ر پر ختم ہو جا ئیگا۔ارسا کے سا بق چیئرمیں انجینئر شفقت مسعو د نے ہندو ستان کی طرف سے ہما رے دریاﺅ ں پر بند باندھنے کے متعلق تفصیل سے بحث کی جس پر ڈا کٹر ویدک نے کہا کہ یہ مسئلہ نہ تو خو د ان کے علم میں اس حد تک ہے اور نہ ہند وستا نیو ں کو اسکی حسا سّیت کا علم ہے تاہم انھو ں نے اپنی بسا ط کے مطابق یہ مسئلہ دونوں طرف کے حکا م کے سا منے رکھنے کا وعد ہ کیا ۔ ڈاکٹر صا حب نے وا ہگہ با رڈر کھو لنے اور بھارت کو وسط ایشیا ءتک راستہ دینے میں جو بیکر ا ں فوائد بیان کئے وہ ناقا بل تصّو ر حد تک پاکستا ن کے مفا د میں تھے البتہ اسکے سا تھ سا تھ ہمیں خلیج بنگا ل تک زمینی راستہ فرا ہم کر نے میں وہ پر جو ش نہ تھے ۔ انکے مطا بق ہم نے کبھی اسکی خوا ہش ہی نہیں کی تھی۔ افغا نستا ن میںجگہ جگہ بلا جوا ز قو نصلیٹ کھولنے اور اسکے ذریعے بلو چستا ن میں تخر یب کا ر ی کو انھو ں نے یکسر مستر د کر دیا ۔ انکے مطا بق وہا ں صر ف چا ر قونصلیٹ ہیں ( با قی سب آ فس وغیرہ ہیں) آگے ۔ جب انہیںیا د دلا یا گیا کہ نہ تو افغانستا ن ان کا فو ری ہمسا یہ ہے نہ ہی پاکستا ن اپنے او پر سے پھلا نگ کر انکے حق ہمسا ئیگی ادا کر نے کو پسند کر تا ہے۔ تو ان کا جواب تھا کہ ہندو ستا ن کی اپنی سٹرٹیجک شنا خت ہے ۔ مو صوف کااس وقت یہا ں آ نااور سب سے وسیع البنیا د ر ابطہ ایک Objective Studyتھی جسکا میر ی نظر میں فو کس وا ہگہ سے افغا نستا ن اور وسط ایشیائی ریا ستو ں تک رسا ئی والے پرا جیکٹ کی عوامی فز یبلٹی تیارکر نا تھا۔ کیا انکے اعتما د کی وجہ اندرون خانہ کسی کا پر یشر یا کسی قسم کی کمٹمنٹ تو نہیں جو پاکستا نی عوام اور اہل فکر و نظرسے تا حا ل پوشیدہ ہو ۔ پاکستان کو عر صہ درا ز سے چہا ر سو معا شر تی و نفسیا تی یلغا ر کا سا منا ہے مثلاً یہ کہ بغیرکسی تفصیلی بحث کے میڈ یا پر او لڈ سلک روٹ کے فوا ئد کا چر چا ہے ۔ دو دن پہلے ایک حقیقی محب وطن اینکر کی زبا ن سے اسطرح کے الفاظ سنے کہ ”گوادرسے چا ئنااور سینٹر ل ایشیا ءسے انڈیا تک جب تجا ر تی رو ٹ کھل جا ئینگے تو پاکستا ن کو تو ریکوڈک سمیت کسی کا م پر مشقت کی ضرورت ہی نہیں پڑ یگی۔ ہمیں اتنی را ہدا ر ی فیس مل جا یا کر یگی کہ معیشت کوئی مسئلہ نہیں رہے گا ۔“ذہن میں کئی سوالا ت ابھرے ۔ کیا را ہد ا ری پر مکمل انحصار واقعی کسی پُرعزم قو م کو دنیا میں سر بلند کر سکتا ہے ؟ کیا ہم واقعی اتنے طاقتو ر ہو گئے ہیں کہ اتنے سارے بڑے ملکو ں کی را ہد ا ر یو ں کو کنٹر و ل کر سکیں ۔ فی الوقت تو ایک ہی راہداری پر ہتھیا رو ں سے بھر ے ہوئے لا تعد ا د کنٹینر ہم تلا ش نہیں کر سکے جو ہما رے بڑ ے شہر میں گم ہو گئے تھے ۔کیا ہمارے پا س کو ئی ایسا جا مع منصو بہ ہے جس کے تحت ہم اپنی انڈ سٹر ی اور ٹر یڈ کو ڈیو یلپ کر کے ان ٹر یڈ راستو ں سے فا ئد ہ اٹھا سکیں ۔ صرف را ہدا ر ی جیسے Non Exertive وسائل پر بیٹھے رہنے والے وقت گز رنے کیسا تھ ساتھ جمود کا شکارہوکر قومو ں کی مسا بقت سے نکل جاتے ہیں اور پھر انکی وقعّت ایک سفید پو ش بھکا ری کی سی رہ جا تی ہے ۔ میر ے نز دیک ان سوا لا ت کے تنا ظر میں ہم فی الحال ایسے کسی ایڈونچر کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اس میں سب سے زیا دہ نقصا ن ہمیں ہندوستا ن سے پہنچ سکتا ہے ۔ افغانستا ن سے نیٹو افوا ج کے انخلا ءکے وقت امر یکی سٹر ٹیجک پار ٹنر کے طو ر پر انڈیا جو رول و سط ایشیا ءمیں سنبھا لنے جا رہا ہے وہ پاکستا ن کیلئے کسی صور ت میں بھی قا بل قبو ل نہیںہو سکتا ۔ امر یکی اڈو ں کی مو جو دگی میں وہا ں انڈ یا کو نہ صرف افغا ن آ ر می کی ٹر یننگ اور افغا نستا ن کی جنر ل ری کنسٹر کشن کی ذمہ دا ری ہو گی بلکہ اس کا دس سا ل سے قا ئم شد ہ نیٹ ور ک علا قے کی ما نیٹر نگ اور حسب استطا عت ہما رے لئے تخریب کا ری کو پرموٹ کر نے کا سبب بنا رہے گا ۔ اور ہم مجو ز ہ راستے سے خو د اسکی لا جسٹک سپورٹ کر رہے ہونگے۔ جب انڈین کا نوا ئے لا ہو ر اور خیبر کے درمیان سفر کریں گے تو ہما رے لئے مسا ئل ہی مسائل ہو نگے۔ جا سو سی کے جد ید آ لا ت کی بد و لت اس رو ٹ کے دو نو ں طر ف 50/60کلو میٹرتک ہماری کو ئی حساس تنصیب محفو ظ نہیں رہ جا ئیگی ۔ بہت سا رے مزدوروں ،ڈرائیورو ں ، کھوکھے والو ں وغیر ہ کا ذریعہ معاش اس سلسلے سے جڑ جا ئیگا جس کے ذریعے انڈین ایجنسیو ں کیلئے پبلک کنٹیکٹ آ سا ن ہو جائے گا جو وہ ہمارے لو گو ں کواپنے ملک کے اندر کبھی نہیں کر نے دیںگے ۔ بے مہا ر افغا نیو ں اور مسافرا نڈین کا ”ری مکس“ علا قے میں کیسا ما حو ل پیدا کر یگا ۔اسکے بعد وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب ان حر کتو ں کی بد ولت ہمیں انکی نقل و حر کت پر سختی سے پا بندی لگا نی پڑ جا ئے جو با لا آخر تصا دم پرمنتج ہو ۔ ہمسا ئیوں کے سا تھ اچھے تعلقا ت ایک نعمت سے کم نہیں ہو تے بشرطیکہ ان میں بد نیتی کا عنصر شامل نہ ہو ۔ ہندوستا ن کے ساتھ آنے جا نے اور ٹریڈ بڑ ھا نے میں کو ئی حر ج نہیں مگر یہ وا ہگہ سے آگے کسی صور ت میں نہیں آ نا چا ہئے ۔ ہندو ستا ن چاہ بہا ر سے جو مو اصلا تی نظا م ہر ات افغا نستا ن تک قا ئم کر چکاہے اُسے اُدھر سے ہی افغانستا ن میں اپنی سپلا ئی لا ئن قا ئم رکھنی چا ہئے ۔رہی با ت دو نو ں طرف کے عوا م کے مائنڈ سیٹ کی تو وہ ہر شا م واہگہ بارڈر کی پر یڈ پر ما نیٹرکی جا سکتی ہے سپا ہیو ں کو نظر انداز کر دیں کیو نکہ وہ تو ڈرل ہے ۔ ذر ا لو گو ں کے جذبا ت دیکھیں کہ وہ کس قدر رو ما نس کیلئے تیا ر ہیں بہتر ہو گا کہ اپنی دیو ار یں اور اونچی کر لیں مگر ہمسایوں کا وا جب احترا م ضر و ر ملحو ظ خا طر رکھیں۔