”میں خاک پر تڑپتا اور کانٹوں پر رقص کرتا ہوں“

 ڈاکٹر حیدری بابا۔۔۔۔
حضرت سخی لعل شہباز قلندرؒ کے سالانہ عرس کے سلسلے میں سنگت محبان حضرت سخی لعل شہباز قلندر کے زیراہتمام شان قلندر کے عنوان سے شام قلندر کی ابتداءہو ئی۔ اس کے بعد لاہور میں مختلف مقامات پر مقامی سنگتیں شام قلندر کے روحانی اجتماع کا سلسلہ جون کے دوسرے عشرے تک جاری رہے گا، لاہور قلندری قافلوں کی صورت میں بلاتفریق مذہب عرس میں شرکت کیلئے سہون شریف جاتے ہیں۔آپ کے سالانہ عرس کے سلسلے میں -14 اکتوبر 2003ءکو ممتاز دانشور اشفاق احمد خاں المشہور تلقین شاہ نے اپنی رہائش گاہ داستان سرائے ماڈل ٹا¶ن لاہور میں چی امن شمع روشن کی، جسے بندہ ناچیز بذریعہ سپیشل ٹرین سہون شریف لیکر گیا تھا وہاں پہنچ کر میں نے حضرت لعل شہباز قلندر کی درگاہ پر حاضری دی اور بابا جی اشفاق احمدکی چی امن شمع روشن کر کے پیارے وطن پاکستان کیلئے امن کی دعا مانگی تھی کیونکہ امن ایک نعمت سے کم نہیں۔ ”چی چائینی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معانی ضمیر، روح اور فن کے ہیں۔“جیساکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی نے ارشاد فرمایا۔ یاد رکھو اے لوگو۔ دیکھو تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے۔ ہم سب آدمؑ کی اولاد ہیں۔ یاد رکھو۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر اور کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت یا امتیاز حاصل نہیں۔حضرت لعل شہباز قلندر کو شاعری سے بہت لگا¶، عربی اور فارسی پر مکمل عبور حاصل تھا، جو اشعار فارسی میں کہے وہ صوفیاءکرام میں بہت مقبول ہوئے، ان کے کلام میں اللہ تعالیٰ سے عشق کا رنگ ملتا ہے
ز عشق دوست ہر ساعت دودی نار می رقصم۔۔۔ گہے در خاک می غلطم گہے بر خار می رقصم
شدم بدنام و عشقش بیاری پارساں اکنوں۔۔۔ نمی ترسم زر سوائی سر بازار می رقصم
بیائے مطرب ساقی سماع شوق راویدہ۔۔۔ کہ من شادی و صلش قلندر دار می رقصم
مرا خلق ہمی گوید گدا چند ایں چہ می رقصم۔۔۔ بدل دادیم اسرار ز آں اسرار می رقصم
خلائق گر کندبرن ملامت ایں سبب ہر دم۔۔۔ مرا عشق است اندر دل زبہر یار می رقصم
مگر نازم بر ایں ذوق کہ پیش یار می رقصم۔۔۔ نمید صوفی شد یارا بیا خرقہ در پوشم
اگر زنار بربستم، در آں زنار می رقصم۔۔۔ تو آقا تل بر تماشا خون من ریزی
من آن بسمل کہ زیر خنجر خودنخوارمی رقصم۔۔۔ منم عثمان مروندی کہ یار خواجہ منصورم
ملامت می کند خلق، کہ من بردار می رقصم
حضرت لعل شہباز قلندرؒ اپنے مندرجہ بالا کلام میں فرماتے ہیں کہ میں ہر وقت اپنے محبوب کے عشق میں آگ پر دھمال یعنی رقص کرتا رہتا ہوں کبھی میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوتا ہوں کیونکہ میں ترابی ہوں۔ میں خاک پر تڑپتا ہوں اور کانٹوں پر رقص کرتا ہوں، میں اس کے عشق میں مبتلا ہوں۔ اس وجہ سے بدنام ہو گیا ہوں۔ البتہ میں اس بدنامی سے ہرگز خوف نہیں کھاتا اور سرعام بازاروں میں رقص کرتا ہوں۔ ساقی آ میرے پاس مجھے پلا کیونکہ مجھے سننے کا شوق ہے میں اس کے وصال کی خوشی میں قلندرانہ رنگ میں رقص کرتا ہوں۔ دیکھنے والے مجھے کہتے ہیں کہ یہ فقیر کیا ہے
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خود ی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
اقبال
سخی شہباز قلندرؒ قلندری رنگ میں فرماتے ہیں کہ یہ سب راز کی باتیں ہیں اور میں انہی بھیدوں کے تحت رقص کرتا ہوں اگر مجھے صبح و شام دنیا والے ملامت کریں تو میرے اندر تو محبوب کا عشق ہے۔ میں کھلم کھلا سرعام دھمال ڈالتا ہوں اور رقص کرتا ہوں۔ میں عشق الٰہی میں اپنے آپ کو اس قدر ڈبو کر محو ہو جاتا ہوں کہ دنیا والے مجھے نہ دیکھ سکتے اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔ 
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
قلندر فرماتے ہیں، مجھے فخر ہے میں محبوب کے سامنے دھمال ڈالتا ہوں، اس لئے میں نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہیں کہ مجھے.... دنیا والے نہیں دیکھ سکتے۔ میں ستار بجاتا ہوں اور اس پر رقص کرتا ہوں۔ اے قاتل تو نے مجھے زہر دے کر مارا ہے میں بسمل کی طرح خنجر تلے بھی رقص کرتا ہوں۔ میں عثمان مروندی خواجہ منصور کا سچا یار ہوں۔ دنیا والے مجھے بُرا بھلا کہتے ہیں میں تختہ دار پر ناچتا رہتا ہوں۔ میں اپنی لگن میں مست ہوں، میں ایسے گہرے، خونی دریا میں اترا ہوں کہ جس کی طوفانی لہریں بندے کو نگل لیتی ہیں۔ اس دریا کی نا¶ شریعت ہے اس کا بادباں طریقت ہے۔ جس کا رنگ لال ہے اور اس کا لنگر حقیقت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فقیر کا راستہ بہت مشکل ہے۔ اب میرا ٹھکانہ کوئی نہیں۔ لعل شہباز قلندر.... اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں۔ تُو اس دریا سے کیوں ڈرتا ہے۔ اس میں جو گیا واپس نہیں آیا۔ اس میں تو ہزاروں جانیں قربان ہو چکی ہیں۔ میں نے بھی دنیاوی لباس اتار پھینکا ہے لہٰذا اب مجھے کسی طرح کا خوف، ڈر نہیں ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
قلندر پاکؒ کے نزدیک دنیا مصائب و آلام کا گھر ہے یہ کائنات فانی ہے اس سے محبت ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے، دنیا ٹھہرنے کی جگہ نہیں بلکہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلے جانے کی جگہ ہے۔آپ کا سارا کلام عشق و محبت سے بھرا ہوا ہے۔ اپنے اندر درد کی داستان لئے ہوئے ہے، جس میں قلندری شاعری کی جھلک ملتی ہے اور درگاہی ادب عیاں ہے، ہر رنگ میں خداوند کریم کی ذات کو راضی رکھا گیا ہے۔ کہ بس تو ہی تو ہے۔ یہ شاعری وہی سمجھ سکتا ہے جو درگاہی ادب سے واقف ہو۔ آج بھی صوفیا کرام کی محفلوں میں آپ کا کلام پسند کیا جاتا ہے، درویش آپ کا کلام سن کر بہت خوش ہو کر بلند آواز میں کہتے ہیں۔
حیدر یم قلندرم مستم بندہ مرتضیٰ علیؑ ہستم
پیشوائے تمام رندانم کہ سگ کوئے شیر یزدا نم
حضرت لعل شہباز قلندرؒ کا پیغام امن و آشتی پر مبنی ہے جو رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر اپنے خالق کی بنائی ہوئی تمام مخلوقات کو محبت و پیار اور امن کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم امن چاہتے ہیں تو دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں اور امن کی تلاش کے لئے قلندر پاک کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سیہون شریف کے عقیدت مندوں کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...