جمہوریتوں پر شب خون مارنے والے آمروں پر آئین کی دفعہ 6 کے اطلاق کی بحث کیا شروع ہوئی ہے، آمروں کی حقیقی، سیاسی اولادوں، آمریتوں کی چھتری کے نیچے ہر جائز ناجائز فائدہ سمیٹنے، خرمستیاں کرنے اور اس چھتری کے ہٹنے سے سیاسی طور پر یتیم ہونے والے بالشتیوں کو چیخ وپکار کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔ دستیاب زندہ جرنیلی آمر مشرف کو دفعہ6 کے پھندے سے بچانے کے لئے جواز گھڑے جا رہے ہیں اور ہذیاتی کیفیت میں باورکرایا جا رہا ہے کہ حکومت کی ترجیحات لوگوں کے روٹی روزگار، مہنگائی اور توانائی کے بحران سے منسلک مسائل حل کرنے کی ہونی چاہئیں یا دفعہ 6 کی عملداری کا تقاضہ نبھانے کی، کیا حکومت کو انہوں نے ایڑیاں رگڑتا ناتواں گدھا یا پھٹیچر گاڑی سمجھ لیا ہے کہ وہ کوئی ایک بوجھ بھی نہیں سہار سکتی۔ بھئی، یہ نتیجہ کیسے اخذ ہو گیا کہ حکومت دستیاب آمر پر دفعہ 6 کی عملداری کے کام میں جت جائے گی تو اسے عوام کی فلاح اور توانائی کے بحران سے ملک کو نکالنے کے کام کی مہلت نہیں ملے گی۔ گورننس کسی ایک چڑیا کا تو نام نہیں کہ بس اسی کے پرکاٹتے اپنی حکمرانی کی میعاد پوری کر لی جائے، کیا خیال ہے جناب، حکومت جرنیلی آمریتوں سے من وسلویٰ سمیٹنے والے عناصر کی چیخ وپکار سے مرعوب ہو کر بس ملکی، قومی اور عوامی مسائل کے حل میں جت جائے اور آئین وقانون شکنوں کی جانب آنکھ بند کر لے۔ حضور خاطر جمع رکھیئے، اگر حکومت دفعہ 6 کی عملداری کے ذریعے شب خون مارنے کی سوچ رکھنے والے خناس کی گردن ناپے گی تو ساتھ ہی ساتھ حکومتی مشینری کی توجہ عوام کے روٹی روزگار اور بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ سے متعلق مسائل کا فوری اور مستقل حل ڈھونڈنے پر بھی مرکوز رہے گی۔ حکومتی مشینری کسی ایک پرزے پر تو مبنی نہیں ہوتی کہ وہ کسی ایک کام کے لئے استعمال ہو تو دوسرا کام رہ جائے گا۔
آپ سارے آمروں (زندہ یا مردہ) پر دفعہ 6 کی عملداری چاہتے ہیں جو مشرف کو دفعہ 6 کے اطلاق سے بچانے کے لئے محض ایک پراپیگنڈہ مہم ہے تو بھی آپ مطمئن رہئے اور دفعہ 6 کی عملداری کا آغاز ہونے دیجئے۔ پھر دیکھئے اس عملداری کی زد میں کون کون آتا ہے۔ اگر ایک کام کا آغاز نہیں ہو گا تو اس کے تمام متعلقین پر اطلاق کی بھی کیسے نوبت آئے گی۔ ورنہ تو پراپیگنڈہ ایسا اچھلا ہے کہ تیسرے جرنیلی آمر ضیاالحق کے صاحبزادے اعجازالحق کو بھی جمہوریت پر تبرہ مارنے اور آمریت کے گن گانے کا پھر سے موقع مل گیا ہے۔ جمہوری عمل میں تیسری بار منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے والے اس پسرِ آمر کو جمہوریت کو گالی دینے کی کیا منطق سوجھی ہے کہ پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے جس جمہوریت میںآمروں کے پروردگان کے ذاتی مفادات پورے نہ ہو رہے ہوں۔ وہ انہیں زہر ہی لگے گی۔
ان عناصر کو جمہوریت کتنی اور کیسے زہر لگتی ہے اس کی جھلکیاں جنرل ضیاالحق اور ان کی اہلیہ بیگم شفیقہ ضیاالحق کے فرسٹ کزن میاں عبدالوحید کی تازہ بہ تازہ شائع ہونے والی خود نوشت ”پاکستان ایٹمی طاقت کیسے بنا“ کے ورق ورق مطالعہ سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس کتاب میں ضیاالحق اور ان کے طرز حکمرانی کی توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے جس عامیانہ انداز اور ناشائستہ الفاظ کے ساتھ سابق وزیراعظم مرحوم محمد خاں جونیجو پر پھبتیاں کسی گئی ہیں، سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور زین نورانی اور سابقہ سیکرٹری خارجہ عبدالستار کو رگیدا گیا ہے اور صاحب کتاب کی ضیائی آمریت کے ذریعے ترقی میں رکاوٹ بننے پر انہیں کوسنے دیئے گئے ہیں اس سے ہی آمریت کے پروردگان کی نکلتی ہوئی موجودہ چیخوں کے پس منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے اس کتاب کے مطالعہ پر زیادہ افسوس یہ ہوا کہ اس کتاب کے ذریعے جمہوریتوں پر شب خون مارنے والی آمریتوں کی مفاد پرستانہ سوچ کی تشہیر کا موقع جمہوری پبلی کیشنز نے فراہم کیا ہے۔ اس کارنامے پر فرخ سہیل گوئندی کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”یُوٹُو بروٹس“؟۔
صاحب کتاب میاں عبدالوحید ذاتی طور پر تو شریف النفس انسان ہیں اور سیاست میں منہ مارتے ہوئے خود بھی کئی بار جمہوری عمل میں شریک ہو چکے ہیں۔ 11 مئی کے انتخابات میں بھی قسمت آزمائی کر چکے ہیں مگر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر بھی آمریت کی جانب ”جھپ“ کھانے والی چال اعجازالحق کی درست ہو سکی نہ میاں عبدالوحید کی۔ میاں عبدالوحید جمہوریت پر اپنے کزن ضیاالحق کے شب خون سے پہلے بھی کئی ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے مگر جرنیلی آمریت میں ان کی سفارت کے گن زیادہ کھلے۔ حیرت ہے کہ وہ اپنی خود نوشت میں صفحہ 241 پر مشرف کے ماورائے آئین اقدام پر تو ان کے گلے پڑ گئے ہیں اور یہ طعنہ دے ڈالا ہے کہ مشرف نے، میاں نواز شریف کی حکومت اپنی ہوس اقتدار کے لئے ختم کی تھی مگر یہ ہوس انہیں ضیاالحق کے ناٹے قد میں کہیں نظر نہیں آتی۔ شائد اس لئے کہ وہ خود بھی ضیائی جرنیلی اقتدار کے فیض یافتگان میں شامل ہیں۔ اس ”ہوس فیض“ کا ان کی خود نوشت کے آخری باب میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ فرماتے ہیں ”میں نے ایک مرتبہ ضیاالحق سے کہا کہ مجھے وزیر خارجہ بنادیا جائے، تو انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لئے تیار ہیں لیکن تب جب میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہو جاﺅں۔ ضیاءالحق نے کہا کہ میرے ایم این اے بننے میں ان کی پوری مدد شامل ہو گی۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ بون میں اپنی سفارتکاری کی مدت پوری ہوتے ہی میں خارجہ سروس سے قبل از وقت ریٹائر ہو جاﺅں گا۔“ صاحبِ کتاب کی یہ خواہش یقیناً پوری ہو جاتی اگر ضیاالحق 17 اگست 1988ءکو ائر کریش کی بھینٹ نہ چڑھتے۔ صاحبِ کتاب نے اس واقعہ پر تاسف کا اظہار بھی اسی پس منظر میں کیا ہے کہ پھر بدقسمتی سے 17 اگست 1988ءکو طیارہ حادثہ میں ضیاءالحق کا انتقال ہو گیا۔ زین نورانی اور عبدالستار پر ان کے غصہ کھانے کا بھی یہی پس منظر تھا کہ ضیاءالحق کے ائر کریش کے بعد ان دونوں حضرات نے صاحبِ کتاب کے ساتھ سرد مہری والا رویہ اختیار کر لیا تھا۔ ان کا اندازِ تخاطب ملاحظہ فرمائیں ”ضیاءالحق نے متعدد مواقع پر وفاقی سیکرٹری خارجہ عبدالستار کو نوازا، ایک بار وہ ٹینس کھیلتے ہوئے گر گئے اور ہسپتال داخل ہوئے تو ضیاءالحق ان کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے“ (گویا یہ بھی ضیاءالحق کا عبدالستار پر بڑا احسان تھا)۔ پھر لکھتے ہیں ”جونیجو بھی بہت فائدے حاصل کر چکے تھے مگر وہ بھی ضیاءالحق کے خلاف ہو گئے اس صورتحال میں وزیر مملکت برائے خارجہ امور زین نورانی اور سیکرٹری خارجہ عبدالستار نے انتہائی منفی کردار ادا کرتے ہوئے صدر اور وزیراعظم میں اختلافات کو ہَوا دی۔ زین نورانی مختلف محفلوں میں ضیاءالحق کی نقل اتارتے اور ان کا مذاق اُڑاتے جبکہ عبدالستار ایک نالائق سازشی تھا“ پھر ملاحظہ فرمائیے کہ موصوف جمہوری قوتوں سے اپنی حیثیت منوانے والے شریف النفس وزیراعظم محمد خان جونیجو کے بارے میں اپنی آمر پرستی کی بنیاد پر کیا رائے رکھتے ہیں ”جونیجو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ اس نے مارشل لاءاٹھوا دیا جبکہ اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ ایک خالی بالٹی بھی نہیں اٹھا سکتا تھا“ (صفحہ 245) ۔ موصوف نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا، آگے چل کر جونیجو مرحوم پر مزید تبرّے کسنے کا شوق بھی پورا کیا۔ فرماتے ہیں کہ ضیاءالحق مرحوم پر کلاشنکوف کلچر متعارف کرانے کا الزام غلط ہے ، کلاشنکوف کے لائسنس دینے کا آغاز تو جونیجو نے کیا تھا۔ ایک جانب ضیاءالحق کی موجودگی میں جونیجو مرحوم پر خالی بالٹی بھی نہ اٹھا پانے کی پھبتی اور دوسری جانب ان کے کلاشنکوف کے لائسنس دینے کے اختیار پر خفگی کا اظہار، یہی درحقیقت آمریتوں کے پروردگان کا وطیرہ ہے اور آئین کی دفعہ 6 کی عملداری کے خلاف آج کی کج بحثی بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے اور جناب اصل پریشانی بھی یہی ہے کہ دفعہ 6 کی عملداری ہو گی تو پہلی زد اس وطیرے پر ہی پڑے گی، اس لئے اس ”وطیرے“ کو پہلو بدل بدل کر چیخ و پکار کرنے دیں، دفعہ 6 کی عملداری سے قیامت انہی پر ٹوٹے گی جو اس کے مستحق ہیں۔