اسلام آباد (عترت جعفری + وقائع نگار خصوصی) وفاقی حکومت نے فنانس بل میں جو تبدیلیاں کی ہیں ان کے تحت آئی پی ٹی وی‘ ایف ایم ریڈیو‘ ایم ایم ڈی ایل‘ موبائل ٹی وی‘ موبائل آڈیو‘ سیٹلائیٹ ٹی وی چینل اور لینڈنگ رائٹس پر اجازت نامہ فیس پر تجدید لائسنس فیس 20 فیصد کے برابر ٹیکس عائد کیا ہے۔ اس سے قبل ان چیزوں پر ٹیکس کی رقم متعین کی گئی تھی جسے اب اجازت نامہ فیس یا تجدید لائسنس فیس کے 20 فیصد کے برابر کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح محققین‘ اساتذہ کے لئے ٹیکس کے 40 فیصد ری بیٹ کو بحال کر دیا گیا ہے، فنانس بل میں اس سے قبل کے 75 فیصد کے ری بیٹ کو ختم کر دیا گیا تھا۔ منظور شدہ فنانس ایکٹ کے تحت 1975 ءکے چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے لئے اضافی مراعات کی منظوری کا اختیار دونوں ایوانوں کی فنانس کمیٹیز سے واپس لے لیا گیا ہے۔ اب یہ اضافی مراعات وفاقی حکومت ہی دے سکے گی۔ خفیہ ایجنسیوں کے اخراجات کو آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دیدیا گیا ہے۔ تنخواہ دار افراد کے لئے بھی ٹیکس کی سلیب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ 4 لاکھ روپے سالانہ تک آمدنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گی۔ پراپرٹی سے آمدنی پر ٹیکس کی تین کیٹیگریز بنائی گئی ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ کی آمدن پر ٹیکس نہیں ہو گا۔ ڈیڑھ لاکھ سے 10 لاکھ تک کرایہ کی آمدنی پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد آمدنی کے 10 فیصد کے برابر ٹیکس ہو گا جبکہ 10 لاکھ روپے سے زائد کرایہ کی آمدن پر 85 ہزار روپے بمعہ 10 لاکھ روپے سے زائد رقم کے 15 فیصد کے برابر ٹیکس لگے گا۔ کمپنی کی صورت میں کرایہ کی تمام رقم کے 15 فیصد کے برابر ٹیکس لگے گا۔ سی این جی پر یکم جولائی سے 26 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔ فنانس ایکٹ 2013-14ءکے تحت یکم جولائی سے سی این جی پر جی ایس ٹی کے معمول کے ریٹ کے علاوہ 9 فیصد اضافی جی ایس ٹی لگے گا۔ اس طرح یکم جولائی سے سی این جی مہنگی ہو جائے گی۔ دریں اثناءقومی اسمبلی نے رواں 2012-13ءکیلئے 3 کھرب 27 ارب روپے سے زائد کے ضمنی مطالبات زر کی منظوری دیدی ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے الگ الگ تحاریک پیش کیں۔ قومی اسمبلی میں رواں مالی سال 2012-13ءکیلئے 11 کھرب 12 ارب 17 کروڑ 29 لاکھ 77 ہزار کے لازمی ضمنی اخراجات کی تفصیلات پیش کی گئیں۔ جس کے مطابق الاﺅنسز کہن سالی و پنشن کیلئے 36 کروڑ 42 لاکھ 87 ہزار، سول ورکس کیلئے 2 کروڑ 23 لاکھ 66 ہزار، سینٹ کیلئے ایک کروڑ ایک لاکھ 43 ہزار، صدر کا عملہ، خانہ داری اور الاﺅنسز 20 کروڑ 68 لاکھ 35 ہزار، قلیل المیعاد غیر ملکی قرضے کی واپسی 2 ارب 13 کروڑ 49 لاکھ 14 ہزار، آڈٹ 31 ہزار، مصارف ملکی قرضہ جات ایک کھرب 65 ارب 27 کروڑ ایک لاکھ ایک ہزار، ملکی قرضہ جات کی واپسی کیلئے 9 کھرب 99 ارب 65 کروڑ 57 لاکھ 82 ہزار، عدالت عظمیٰ کیلئے ایک ہزار، انتخابات کیلئے 3 ارب 14 کروڑ 58 لاکھ 33 ہزار، وفاقی محتسب کیلئے 9 کروڑ 59 لاکھ 87 ہزار اور وفاقی ٹیکس محتسب کیلئے 96 لاکھ 99 ہزار روپے کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت رپورٹ) قومی اسمبلی نے 2013-14ءکے بجٹ (فنانس بل) کی ترامیم سمیت کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔ نئے بجٹ کے تحت جی ایس ٹی سمیت تمام ٹیکسوں میں 13 جون سے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے ایک نئی شق کا اضافہ کر کے 13 سے 21 جون کے دوران وصول کئے گئے ایک فیصد اضافی ٹیکس کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ فنانس بل میں حکومت کی 8 ترامیم منظور کی گئیں جبکہ اپوزیشن کی پیش کردہ 4 ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دی گئیں۔ وفاقی بجٹ کا حجم 35 کھرب 91 ارب روپے سے زائد ہے۔ ارکان اسمبلی کے الا¶نسز سے متعلق فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم کی منظور بھی دی گئی ہے۔ منظور شدہ ترمیمی فناس بل میں جی ایس ٹی سمیت تمام ٹیکسز میں اضافے کا اطلاق 13 جون سے کرنے اور سی این جی پر 9 فیصد اضافی جی ایس ٹی یکم جولائی 2013ءسے نافذ کرنے کی تجویز شامل کی گئی۔ موبائل سروس استعمال کرنے والوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس 10 سے بڑھا کر 15 فیصد کیا جائے گا۔ قومی سلامتی سے متعلق ایجنسیوں کے اکا¶نٹس کو آڈٹ سے مستثنیٰ قرار دینے کا قانون اور غیر رجسٹرڈ افراد اور کمپنیوں و سپلائی پر 2 فیصد اضافی ٹیکس کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز بھی شامل کی گئی ہے۔ اپوزیشن نے بجٹ پر شدد تنقید کرتے ہوئے اسے اعداد و شمار کا ہیر پھیر قرار دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے کہا کہ ترمیمی فنانس بل 2013ءمنی بجٹ ہے، موبائل سروس کے استعمال میں 5 فیصد اضافے سے نوجوان متاثر ہوں گے۔ سروس پر ودہولڈنگ ٹیکس لگانا غیر آئینی اقدام ہے۔ ایم کیو ایم نے موجودہ بجٹ کو ظالمانہ بجٹ قرار دیا۔ تحریک انصاف نے بھی فنانس ترمیمی بل 2013ءمسترد کر دیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جی ایس ٹی میں اضافے کا اطلاق 13 جون سے کرنا غیر آئینی ہے۔ بجٹ منظور نہیں ہوا تھا اور حکومت نے پالیسی میں تبدیلی شروع کر دی۔ ترمیمی بل سے واضح ہے مسلم لیگ (ن) سپریم کورٹ کو نہیں مانتی، ٹیکسز کی شرح اتنی بڑھائی گئی جس سے عام آدمی متاثر ہو گا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا کہ جی ایس ٹی میں اضافے کی وصولی 13 جون سے کی جائے گی۔ فنانس بل کی شق 3 میں تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت سی این جی سٹیشنز پر اضافی 9 فیصد ٹیکس دوبارہ عائد کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام پاکستان کے مفاد میں ہو گا، آئی ایم ایف سے ملکی مفاد کی بات کرینگے، نیٹ ٹیکس بڑھائیں گے مزید ٹیکس نہیں لگائیں گے، جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کو پانچ فیصد قرار دینا درست نہیں، آئی ایم ایف نے مزید ٹیکس بڑھانے کے لئے کہا ہے مگر اس شرط پر گرانٹ نہیں لیں گے۔ منی بجٹ پیش کر نے کا الزام درست نہیں۔ فنانس بل کی منظوری سے قبل ہونے والی بحث میں ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کے جواب میں وزیر خزانہ نے کہا کہ بہت سے ارکان ابھی بجٹ تجاویز سمجھنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اس لئے ان میں ابہام پایا جاتا ہے۔ اگر کسی نے کبھی کوئی غلط ترامیم کی ہے ہم اس کو ختم کرینگے کسی کو حق نہیں کہ وہ اپنے کیس میں خود جج بن جائے ہم جو ترامیم لارہے ہیں اس کے تحت ہم اصل چیز پر واپس جا رہے ہیں۔ اسحق ڈار نے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور بہتر پر فارم کرینگے ہمارے جذبے کو سراہا جائے۔ گذشتہ کئی سال سے یہ کام ہو رہا ہے کہ بجٹ کے اعلان سے اگلے دن ٹیکسوں کا نفاذ ہو جاتا تھا بھارت، بنگلہ دیش سمیت درجنوں ممالک میں یہ روایت موجود ہے اگر اس کو بدلنا چاہتے ہیں تو ملکر بیٹھیں اور بدل لیں۔ جنرل سیلز ٹیکس کے معاملہ پر ہم نے عدالتی فیصلہ کا احترام کیا، عدالت کے فیصلے کے فوراً بعد جی ایس ٹی میں کیا گیا ایک فیصد اضافہ واپس لے لیا۔ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کو پانچ فیصد قرار دینا درست نہیں۔ ہم نے اپوزیشن کی اچھی تجاویز پر عمل کر تے ہوئے انہیں بجٹ میں شامل کیا ہے۔ اپوزیشن وہ بات جو اچھی ہو گیلریوں کو خوش نہ کرے، ہم اپوزیشن کی اچھی باتیں سننے کےلئے تیار ہیں پاکستان کے مفادات پر سیاست نہ کی جائے ہم سب کو پاکستان کی بات کرنی چاہئے، اسی میں سب کی بہتری ہے۔ آئی ایم ایف کا اگلا پروگرام پاکستان کے مفاد میں ہو گا میں نے کہہ دیا ہے کہ 475 ارب کے ٹیکس ہم نہیں لگائیں گے گذشتہ سال 2000 ارب ادھار لے کر ملک چلایا گیا ایسی باتیں تو ”بنانا ریپبلک“ میں بھی نہیں ہوتیں جتنی تباہی ہو چکی ہے ہم ملکر نہ چلے تو ملک بحران سے نہیں نکل سکے گا۔ حاجیوں پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ مالی اصلاحات کیں اور مالی سیکٹر کو بحال کیا اور ہم اس کو مزید بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط نہیں مانیں گے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اپوزیشن کی تنقید غلط فہمی پر مبنی ہے، سیلز ٹیکس میں اضافے کا 13 جون سے اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق ہے، ٹیکسوں میں اضافہ نہیں کریں گے، آئی ایم ایف والے قرضہ نہیں دیتے تو نہ دیں۔ جو کام سابق حکومتیں نہ کر سکیں وہ ہم کریں گے۔ این آر او ختم ہو چکا ہے، معیشت کی بحالی کے لئے سیاست سے گریز کیا جائے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ اٹھارہ کروڑ عوام امید کر کے بیٹھے تھے کہ بجٹ میں انہیں ریلیف ملے گا مگر بجٹ میں نہ صرف پرانے ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا، کئی نئے ٹیکسوں کا بوجھ بھی عوام پر ڈال دیا گیا، فنانس بل میں جو ترامیم کی گئی ہیں چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے الاﺅنسز کاٹ دئیے ہیں، اس طرح ارکان پارلیمنٹ کے الاﺅنسز کے حوالے سے بھی دوہرا معیار اپنایا گیا، اسلام آباد کے قریب رہنے والوں کو زیادہ الاﺅنس ملیں گے، دوسروں کو کم، درحقیقت یہ ساری چیزیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں طے کی جانے والی تھیں، فنانس بل میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ٹیکسوں میں اضافہ 13 جون سے لاگو کرنے کی بات کی گئی بجائے اس کے کہ کوئی راستہ نکالتے الٹا سپریم کورٹ کے برخلاف فنانس بل میں شق ڈال دی گئی۔ صوبوں کی جانب سے جو احتجاج کیا جا رہا ہے کہ وفاقی حکومت خدمات پر سیلز ٹیکس وصول کر نے جا رہی ہے مگر ان کی آواز پر بھی کان نہیں دھرے گئے، کیا آپ دوہرا ٹیکس نہیں لگا رہے، ایک جانب وفاق خدمات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی وصول کر ے گا جبکہ صوبے سیلز ٹیکس وصول کریں گے، اس کے علاوہ سیلز ٹیکس میں جو ایک فیصد، دو فیصد اور پانچ فیصد اضافہ کیا گیا اس کا نتیجہ عوام مہنگائی کی شکل میں بھگت رہے ہیں، اس کے بدلے میں ریلیف کہاں ہے، موبائل فون استعمال کر نے والوں پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ بجٹ آنے والے بجٹوں کا پیش خیمہ ہے، برائے مہربانی غریبوں کے لیے کچھ سوچا کریں، پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ابھی بجٹ منظور ہوا نہیں تھا کہ منی بجٹ ساتھ نتھی کر دیا گیا، فنانس بل اور ترامیم بل میں غیر حقیقت پسندانہ ٹیکس لگائے گئے ہیں، اب تو آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا کہ 2475 ارب روپے کا ٹیکس ریونیو ہدف غیر حققت پسندانہ ہے۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ 30 جون تک کل ٹیکس ریونیو 2007 ارب روپے تک نہیں پہنچ سکے گا، سیلز ٹیکس میں اضافے کے 13 جون سے اطلاق کو حالانکہ سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے دیا مگر انہوں نے اسے ایک بار پھر 13 جون سے مسلط کر دیا سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ بجٹ پر بحث کے دوران نشاندہی کی تھی کہ انکم ٹیکس کی شرح میں تبدیلی درست نہیں جس کو حکومت نے مانا۔ وزیر خزانہ نے ایڈوانس ٹیکس کی وصولی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ پیش کئے جانے کی تاریخ سے ٹیکسوں کی وصولی ماضی کی روایت رہی ہے تاہم عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے اس ٹیکس وصولی کو قانونی جواز فراہم کر دیا گیا ہے۔ سپیکر اور چیئرمین کی تنخواہوں اور مراعات کا تعین 1975ءکے ایکٹ کے تحت فنانس بل کے ذریعے ہونا تھا۔ حکومت نے بائیس جون کو ٹیکس وصولی بند کر دی تھی۔ ملک اور عوام کے مفاد میں تمام مشورے قبول کئے جائیں گے۔ مفاد عامہ پر سیاست نہیں کرنی چاہئے۔ 22 تا 30 جون تک جمع ہونے والے ٹیکس کا حکومت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہوا ہے۔ خزانہ خالی ہے جو گذشتہ حکومت کا قصور ہے۔ ایوان زیریں کی مالیاتی کمیٹی کو بااختیار بنایا جائے گا۔ انہوں نے اپوزیشن کی تنقید مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسی طرح جی ایس ٹی کے نفاذ کی وہ دستاویزات پیش کر سکتے ہیں جن پر پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ سید نوید قمر کے دستخط موجود ہیں۔ 34 وزارتوں کا سیکرٹ فنڈ بند کر دیا ہے، ٹیکس چوری روکیں گے۔ ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی آصف حسنین نے کہا کہ حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں آئی ایم ایف کی تمام تر شرائط تسلیم کر لی ہیں۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر بجٹ بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی ڈاکٹر عذرا افضل پیچوہو نے کہا کہ ٹیکس حکام کی بنک اکا¶نٹس تک رسائی کے نتیجہ میں عوام کا بنکوں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس پیسے نہیں تو یہ چاہتے ہیں غریبوں کے بجائے امیروں پر ٹیکس بڑھاتے۔ پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ بجٹ صرف اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے، تحریک انصاف کے امجد خان نیازی نے کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ اسحق ڈار نے اپوزیشن دور میں سیلز ٹیکس میں اضافے کی مخالفت کی تھی اب خود بجٹ میں سیلز ٹیکس بڑھا دیا ہے۔