صحرا میں بھٹکنے والا قافلہ

حضرت عمر فاروق ؓ سے منسوب یہ بات اسلامی حکمرانی کے معیار کو جانچنے کا پیمانہ بن گئی ہے کہ ” اگر کوئی کتا تک دریائے فرات کے کنارے بھی بھوک سے مر جائے تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہوں گا۔“ جس اسلامی فلاحی مملکت کا تصور بانی ءپاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے دیا اس کے لئے انسپریشن یقینی طور پر حضرت عمر فاروق ؓ کے اِسی ارشاد سے حاصل کی گئی ہوگی۔آج میں سوچ رہا ہوں کہ اگر شمالی وزیرستان میں کئے جانے والے آپریشن کے متاثرین کے علم یا آگہی میں فاروق اعظم ؓ کی یہ بات پہنچی ہوگی تو وہ اپنے ذہنوں میں اس اندوہناک سوچ کو داخل ہونے سے روک نہیں سکے ہوں گے کہ ” ہم ایک غلط دور میں کیوں پیدا ہوئے ۔ ہم سے تو دورِ عمر ؓ کے کتے ہی زیادہ خوش قسمت تھے !“ بات بڑی تکلیف دہ بلکہ سنگین ہے مگر سچ اگر کڑوا ہو تو بھی کان بند نہیں کرنے چاہئیں۔ اور سچ یہ ہے کہ اگر آپریشن ضربِ عضب کے متاثرین کی ناگفتہ بہ صورتحال نے ایک انسانی المیے کی صورت اختیار کرلی تو وہ سب لوگ خدا کے حضور مجرم بن کر پیش ہوں گے جنہوں نے نعرے تو ” سلطانی ءجمہور “ کے بلند کئے لیکن جن کی سوچ سے یہ حقیقت دور رہی کہ پاکستان میں جمہور کی تعداد انیس کروڑ سے بھی تجاوز کرچکی ہے اور ” جمہور “ صرف وہ لوگ نہیں جو لاہور راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں بستے ہیں وہ کروڑوں لوگ بھی ہیں جو میٹرو بس سروس کی ” برکات “ سے زندگی بھر فیضیاب نہیں ہوسکیں گے۔میری اِس بات کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ میں میٹرو بس سروس کے منصوبے کی مخالفت کر رہا ہوں۔ کہنا میں صرف یہ چاہ رہا ہوں کہ اگر پاکستان کی سا لمیت سلامتی اور بقاءکے لئے شمالی وزیرستان میں کیا جانے والا آپریشن ناگزیر تھا اور یہ ایک ” آفت ِ ناگہانی “ کے طور پر اچانک آسمان سے نہیں اترا تو کیا راولپنڈی اور اسلام آباد میں ہنگامی بنیادوں پر شرو ع کئے جانے والے ” میٹرو پروجیکٹ “ کو ایک ڈیڑھ سال کے لئے ملتوی کرکے ” کچھ ضروری مالی وسائل “ آئی ڈی پیز کو ناگزیر ” لوازمات زندگی “ فراہم کرنے کے لئے وقف نہیں کئے جاسکتے تھے ۔؟
اخبارات میں اور ٹی وی چینلز پر اشتہارات کے ذریعے یہ گمراہ کن تاثر قائم کیا جارہا ہے کہ بڑے بڑے منصوبوں کی بھرمار نے وطنِ عزیز کو شاہراہِ تعمیر و ترقی پر ڈال کر ایک آسودہ اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن کردیا ہے ۔ حقیقت اس گمراہ کن تاثر کے برعکس یہ ہے کہ ہم دولت کے وہ انبار ”آج “ خرچ کررہے ہیں جنہیں کمانے کے لئے ہماری آنے والی نسلوں کو شب و روز محنت کرنی ہوگی۔ دولت کے یہ انبار ہمارے کھیتوںسے نہیں اُگے اور نہ ہی ہماری زمین نے معدنی ذخائر کی صورت میں اُگلے ہیں۔ یہ ساری دولت جو نظروں کو چکا چوند کردینے والے منصوبوں پر خرچ کی جارہی ہے یہ ساری دولت ہمارے حکمرانوں نے اپنے ذاتی خزانوں کا منہ کھول کر قوم کو نہیں دی۔یہ ساری دولت ان بڑے بڑے قرضوں کے ذریعے ہمارے خالی خزانوں میں آرہی ہے جن کے عظیم بوجھ تلے ہماری آنے والی نسلوں کی عمر بھی سسکتے بلکتے گزرے گی۔
یہ المیہ کتنا بڑا ہے کہ تقریباً 67برس کے بعد بھی عوام کو اپنے دو بنیادی ” جمہوری حقوق “ میں سے ایک بھی آج تک نہیں ملا۔ عوام کا ایک حق تو یہی تھا ¾ ہے اور رہے گا کہ اپنا لیڈر ¾ اپنا حاکم ¾ اپنا حکمران یا اپنا چیف ایگزیکٹو منتخب کرنے کا اختیار براہ راست انہیں حاصل ہو۔ وہ خود اپنے ووٹوں کی قوت سے فیصلہ کریں کہ حکومت کرنے اور قوم کے مقدر کے فیصلے کرنے کا اختیار کس ” رجلِ عظیم “ کے ہاتھوں میں ہو۔پارلیمانی نظام حقیقی جمہوریت کے اس بنیادی تصور کی نفی کرتاہے۔ موجودہ انتخابی نظام میں پہلے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان عوامی نمائندوں کی صوابدید سے یا اُن کے جوڑ توڑ کی بدولت وزیراعظم منتخب ہوتاہے۔ گویا یہ فیصلہ کہ ملک کی باگ ڈور کس شخص کو سونپی جائے 342افراد کرتے ہیں۔ اس نظام سے کہیں زیادہ جمہوری تو فیلڈ مارشل ایوب خان کا نافذ کردہ نظام تھا جس میں صدر یا چیف ایگزیکٹو کا انتخاب 80ہزار بی ڈیز )یعنی نمائندگانِ بنیادی جمہوریت (کرتے تھے۔عوام کادوسرا حق جو انہیں نہیں ملا وہ اپنے علاقے میں اپنے معاملات اور اپنے وسائل اپنے ہاتھ میں رکھنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق ہے۔جنرل پرویز مشرف نے مقامی حکومتوں کا نظام لا کر اس حق کو تسلیم کرنے کی طرف ایک بڑا قدم اٹھانے کی کوشش ضرور کی ¾ مگر جب ” عوام کے نمائندے “ برسراقتدار آئے تو انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اس حق کو آہنی ارادوں اور آہنی قوت کے ساتھ اپنے قدموںتلے کچل ڈالا۔ یوں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوگئی کہ چند بڑے اور طاقتور خاندان اقتدار پر بھی اور وسائل پر بھی اپنا بھرپور قبضہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہوچکا ہوتا تو لاہور کے ناظم کو پورا حق اور پورا اختیار ہوتا کہ جو وسائل اسے دستیاب ہوتے انہیں وہ میٹروبس سروس کے منصوبے پر خرچ کرتا ۔ یہی اختیار پھر راولپنڈی کے ناظم کو بھی ہوتا ۔ لیکن ایک مخصوص حکمران طبقہ و سائل اور اقتدار کی عوام کو منتقلی کے عمل کو اپنے لئے اقدامِ خودکشی سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار اور وسائل پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتاہے۔ ستم ظریفی کی بات یہاں یہ ہے کہ اس غاصبانہ عمل کو وہ جمہوریت کا نام دے رہا ہے۔آج ملک میں جو سیاسی فضا بنی ہوئی ہے اور اقتدار کی رسہ کشی کی جو صورتحال پیدا ہوچکی ہے اس میں ایک طرف ” جمہوریت “ کو ڈی ریل کرنے کی تمام تر کوششوں اور سازشوں کو ناکام بنا ڈالنے کے عزم کا اظہار کیا جارہا ہے ¾ اور دوسری طرف نا انصافی بدمعاملگی اور کرپشن کے اس نظام سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے مصمّم ارادے ظاہر کئے جارہے ہیں ۔ جس جمہوریت کو بچانے اور قائم رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں وہ ” سلطانی ءجمہور “ ہے ہی نہیں او ر اسے جمہوریت صرف اس بناءپر قرار دیا جارہا ہے کہ حکومت ایک انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہوئی ہے ۔ اس ضمن میں ” فیض یافتگان ِ جمہوریت “ دھاندلی کے اُن بلند بانگ الزامات پر کان تک دھرنے کے لئے تیار نہیں جو متعلقہ انتخابی عمل کے بارے میں عائد کئے جارہے ہیں۔ نظام خواہ کوئی ہی کیوں نہ ہو جو بات اس کے قابل قبول ہونے کا تعین کرتی ہے وہ اِس کی legitimacyہے۔ انگریزی کے اس لفظ کا اردو متبادل میرے ذہن میں نہیں آرہا مگر اس کا مطلب آپ اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ جائز اور ناجائز کا فرق ہمارے دین اور ہمارے معاشرے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ایک فرد کی زندگی میں ” نکاح“ کا تصور بھی اس فرق کو قائم رکھنے کے لئے داخل کیا گیا ہے۔ جائز اور ناجائز کو آپ ” حلال اور حرام “ کے پیمانے پر بھی پرکھ سکتے ہیں۔ بات کو آسان بنانے کیلئے legitimacyکی تعریف کیلئے میں ” اخلاقی جواز “ کی ترکیب منتخب کروں گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت کسی نہ کسی بنیاد پر legitimacyیعنی اپنے اخلاقی جواز سے محروم رہی ہے۔ صرف ایک ” انتخابی عمل “ ایسا ضرور سامنے آیا تھا جسے بڑی حد تک قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے۔ میرا اشارہ 1970ءکے عام انتخابات کی طرف ہے۔ اس ضمن میں بھی المناک بات یہ ہے کہ اِس انتخابی عمل کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ حکومت ہی قائم نہ ہوسکی بلکہ یہ بھی کہ ہمارا ملک دولخت ہوگیا۔ دسمبر1971ءمیں جناب بھٹو کا برسراقتدار آنا نظریہ ءضرورت کے تحت تو قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے مگر اس کا اخلاقی جواز کوئی نہیں تھا۔ جس پارلیمنٹ نے ہمارا موجودہ آئین بنایا تھا وہ بھی کوئی مینڈیٹ نہیں رکھتی تھی۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے المیے نے1970ءکے انتخابی عمل اور اس عمل کے نتیجے میں سامنے آنے والے مینڈیٹ کو خود بخود منسوخ کردیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس ” آئین “ کو احکامات خداوندی سے بھی زیادہ تقدس دیا جاتا ہے اس کی کوئی legitimacyنہیں۔ اگر بھٹو آئین بنانے کا مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے نئے انتخابات کراتے او ر اُن انتخابات کے ذریعے جو پارلیمنٹ قائم ہوتی وہ ہمارا آئین بناتی۔ پھر اگراُس آئین کو ریفرنڈم کے لئے پیش کرکے عوام کی براہ راست منظوری لی جاتی تو ہم ابھی تک صحرا میں بھٹکنے والے ایک قافلے کی مانند نہ ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن