آجکل سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے حوالے سے یہ خبر چل رہی ہے کہ ترک خاتون اول کے ہار سکینڈل کے بعد شوکت عزیز کا سکینڈل بھی سامنے آ گیا۔ وہ 4 کروڑ 38 لاکھ مالیت کے قیمتی تحائف صرف 57 لاکھ روپے میں خرید کر ملک سے فرار ہو گئے۔ اسکی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ شوکت عزیز سعودی عرب سے ملنے والا ڈیڑھ کروڑ روپے کا جیولری سیٹ صرف 22 لاکھ اور برطانوی کمانڈر سے ملنے والی 11 لاکھ روپے کی لیدر بیگ اور گھڑی ایک لاکھ 25 ہزار روپے میں لے گئے۔ شوکت عزیز نے تحائف خریدنے کیلئے قانونی راستہ اختیار کیا۔ اس پر ان کو مطعون کرنا مناسب نہیں، خود کو ملنے والے تحائف قانون کے تحت خریدنے پر ان کو نہیں کہا جا سکتا کہ کچھ تو شرم ہونی چاہئے، کچھ حیا ہونی چاہئے۔ جس معاملے پر ’’شونکے‘‘ کو شرم و حیا کا آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے اسکے تذکرے سے پہلے خبر میں یوسف رضا گیلانی کے ترک خاتون اول ایمن طیب اردگان کے ہار سکینڈل کے بارے میں بات کر لی جائے! 2010ء کے سیلاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے پوری دنیا کے سامنے اپنا دامن پھیلایا۔ ترک حکومت نے بھی حکومت پاکستان کی درخواست پر وسیع القلبی کا مظاہرہ کیا۔ ترک خاتون اول ایمن طیب اردگان نے اپنا نیکلس سیلاب کے مارے پاکستانیوں کی مدد کیلئے وقف کر دیا۔یہ انہیں طیب اردگان نے شادی کے موقع پر دیا تھا۔ خوشامدی تو ہر جگہ ہوتے ہیں، کسی تنظیم یا ادارے نے ہار کی قیمت پاکستان کے سیلاب فنڈ میں دیکر خاتون اول کو واپس کردیا۔ کہا گیا کہ ’’ ترک قوم‘‘ نے خاتون اول کا نیکلس خرید کر لوٹا دیاہے۔ ہمارے ہاں بھی صدر، وزیراعظم، گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو قوم کی طرف سے تنظیمیں اور ادارے ایسے چاپلوسانہ تحفے پیش کرتی رہتی ہیں۔قوم کی طرف سے اپنے حکمرانوں کی بہترین کارگزاری کا تحفہ انتخابات میں ان پر اعتماد ہوتا ہے۔ ایک تحفہ آج کی خاتون اول بیگم کلثوم نے آرمی چیف کی اہلیہ کو بھجوایا۔یہ تین کشمیری شالیں تھیں۔ایک کی قیمت چھ لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔یہ بھی شاید قوم کی طرف سے تحفہ تھا جو جنرل راحیل کی اہلیہ نے قبول نہیں کیا۔ بہرحال طیب اردگان اُس وقت کے وزیراعظم تھے، آج صدر ہیں… وہ پاکستان آئے، دادو میں سیلاب متاثرین کے کیمپ میں گئے۔ وزیراعظم گیلانی بھی ساتھ تھے۔ یہاں 8 بچیوں کی شادی تھی۔ اس موقع پر ترک خاتون اول نے اپنا نیکلس ان بچیوں کو دینے کا اعلان کر دیا اور یہ فوزیہ گیلانی نے وصول کیا۔ نادرا کے اُس دور کے چیئرمین علی ارشد حکیم کے بقول نادرا نے یہ ہار 16 لاکھ میں خرید کر رقم لڑکیوں میں تقسیم کی اور نیکلس وزیراعظم ہائوس میں پاک ترک دوستی کی علامت کے طور پرنمائش کیلئے رکھ دیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو یہ نیکلس وہاں نہ ملا تو تحقیقات کا حکم دیا گیا۔کھرا ملتان کے مخدوم یوسف رضا گیلانی کے گھر تک جا پہنچا۔ چودھری نثار کی ایف آئی اے نے برآمدگی کیلئے اصرار کیا اور ساتھ ہی کیس کرنے کا ڈراوا دیا تو گیلانی صاحب نے ہار واپس بھجوا دیا۔ چودھری نثار چیک کرا لیں ہار اصلی بھی ہے! گیلانی صاحب قانونی طور پر ہار خرید سکتے تھے مگر انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ کیا ایک وزیراعظم کو یہ زیب دیتا ہے، کچھ شرم ہونی چاہئے، کچھ حیا ہونی چاہئے۔ شوکت عزیز نے تحائف اپنے نام کرانے کا قانونی راستہ اختیار کیا مگر بھارتی سٹیل ٹائیکون لکشمی متل کی نوکری کر کے اپنی مٹی پلید کی اور اپنے تئیںپاکستان کا وقار خاک میں ملا دیا۔وزیراعظم نوازشریف لندن گئے تو متل سے ملاقات کی۔اس موقع متل کے فنانشل ایڈوائزر کے طور پر شوکت عزیز بھی موجود تھے۔ نوازشریف کو کہنا چاہئے تھا کہ کچھ توشرم… شوکت عزیز! اِدھر وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے اُدھر لندن شفٹ ہوگئے اور متل کی نوکری کر لی۔ایک غیرت مند پاکستانی کے طور پر انہیں پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کرنی چاہئے تھی۔ مگر ’’شوکا‘‘ گرا تو کس کے قدموں میں گرا! کچھ تو شرم… وزارت عظمیٰ کے دوران بھی شوکت عزیزنے متل کے ایماء پر ہی سٹیل مل فروخت کی۔یہ سودا سپریم کورٹ نے کینسل کردیا تھا۔صرف شوکت عزیز ہی پر موقوف نہیں، ہمارے جرنیل تک ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ممالک جا کر نوکریاں کرتے ہیں۔ جہانگیر کرامت اور شجاع پاشا ہونہار سپاہی مانے جاتے ہیں ۔ ریٹائرمنٹ پر جہانگیر کرامت امریکہ اور شجاع پاشا امارات میں ملازم ہو گئے۔ کچھ تو شرم… کیا فوج اتنی بھی پنشن نہیں دیتی کہ دو وقت کی روٹی چل سکے؟انٹیلی جنس کے لوگ بھی اندرون اور بیرون ممالک ریٹائرمنٹ کے بعد نوکریاں کرتے ہیں یہ لوگ سراپا راز ہوتے ہیں۔ اپنے مقاصد کیلئے متل جیسے لوگوں کے توسط سے پاکستان دشمن ایسے لوگوں کوبھاری معاوضوں پر بھرتی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ہم کیوں ایسے لوگوں کو ضائع کرتے ہیں، ہر شعبہ میں جب کوئی مہارت کی معراج کو پہنچتا ہے اسے ریٹائر کر دیا جاتا ہے۔ تعلیم کا شعبہ ہو صحت، قانون یا کوئی بھی جب تک کوئی کام کر سکتا ہے اسے کرنے دیں، ریٹائرمنٹ ایک آپشن ہو۔ خصوصی طور پر انٹیلی جنس کے لوگوں کیلئے ۔ ریٹائر کرنا ہے تو مراعات اس قدر دے دیں کہ نوکری کی ضرورت نہ رہے تاکہ رازوں کا خزینہ سینے کا دفینہ بنارہے۔ کراچی میں لوگ آج بھی Heat wave سے مر رہے ہیں۔ وفاقی اور سندھ حکومت ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔ اس موقع پر وزیراعظم کو کراچی میں ہونا چاہئے تھا مگر اس سے بھی بڑی بے حسی دیکھی گئی۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، اسکے قائدین فریال تالپور اور آصف زرداری کراچی والوں کو مرتا چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ کچھ توشرم… متحدہ پھر زیرعتاب ہے۔ بی بی سی نے پاکستان کے مقتدر حلقوں کے حوالے سے کہا ہے کہ متحدہ کی بھارت مالی مدد کرتا رہاہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس پر حسب معمول تشویش ظاہر کی۔کیا وزیراعظم کو بھارت متحدہ رابطوں کی اب خبر ہوئی ہے۔ وزیر داخلہ نثار کہتے ہیں۔’’ برطانیہ حقائق تک رسائی دے‘‘۔ جبکہ خبر پاکستان کے مقتدر حلقوں کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ ہو سکتا ہے سورس خود چودھری نثار ہی ہوں۔ ایسی مضحکہ خیزی پر کچھ توشرم…الطاف حسین اپنی عادت کے مطابق پھر گرجے ہیں۔ ندامت کے بجائے دھمکی دے رہے ہیں ’’لوڈشیڈنگ ہمیں بھی کرنا آتی ہے‘‘کل را کو مدد کیلئے پکار رہے تھے،کارکن انڈیا سے تربیت لینے کا اعتراف کررہے ہیں۔انڈیا جاکر پاکستان اورنظریہ پاکستان کیخلاف باتیں بھی قوم کو یاد ہیں۔تقسیم ہند کو جناب نے بلنڈر قرار دیا تھا۔بی بی سی کی رپورٹ کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں۔یہ رپورٹ پارٹی پر پابندی اور لیڈروں پر غداری کے فیصلے کا باعث بھی بن سکتی ہے مگر آپ بی بی سی پر سوء نہیں کررہے۔کیوں؟ اس لئے کہ کہ رپورٹ درست ثابت ہوسکتی ہے۔۔۔کچھ تو شرم ہونی چاہیے کچھ تو حیا ہونی چاہیے۔