دل میں وہ درد نہاں ہے کہ بتائیں کس کو!

Jun 28, 2016

....شوکت علی شاہ....

دل کا ایک درد وہ ہے جو حاکموں کے سینے میں پیدا ہوتا ہے۔ وجوہ چاہے کچھ بھی ہوں، تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ پسی ہوئی قوم کا غم انہیں چین سے جینے نہیں دیتا۔ ریزہ ریزہ بکھرتے ہیں، قطرہ قطرہ پگھلتے ہیں اور باامر مجبوری دیار غیر میں جا کر علاج کرانا پڑتا ہے۔ دوسرا درد وہ ہے جو بیس کروڑ عوام کے سینے میں موجزن ہے ،یہ لاعلاج ہے۔ دوا کی جگہ جب محض دعا پر بھروسہ کیا جائے تو پھر کوئی معجرہ ہی اپنوں کو قہر مذلت سے نکال سکتا ہے۔
جو لوگ اس امید پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں کہ ایک دن اچانک گلرنگ سویرا ہو گا، چار سو پھول کھلیں گے اور ساتوں آسمانوں سے من و سلوا اترے گا، ان کے لیے معجزے نہیں ہوتے۔ اسی بات کی کتاب ہدایت میں بڑی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے، جس قوم کو آپ اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو، جو جدوجہد نہیں کرتی، جو ظلم تو سہتی ہے بغاوت نہیں کرتی، رب ذوالجلال اس کی حالت نہیں بدلتا۔
ہم عجیب لوگ ہیں لفظوں کے معانی اور مفاہیم بدل دیتے ہیں آجکل جمہوریت کے پیچھے لٹھ لیکر پڑے ہوئے ہیں۔ سیاست دان چار سوواویلا کر رہے ہیں جمہوریت خطرے میں ہے!…کونسی جمہوریت؟
یہ وہ جمہوریت نہیں ہے جس کا پرچارک ابراہیم لنکن تھا۔
Govt of the people, By the people, For the people آج اگر وہ زندہ ہوتا تو بڑی حیرت سے دیکھتا کہ ہم نے الفاظ کو سنہری چولا پہنا دیا ہے۔
Govt off the people Buy the people Far the people
جمہوریت بھی سوچتی ہو گی، کس ملک میں آن پہنچی ہے، کن لوگوں کے نرغے میں ہے، مہذب ملکوں میں یہ ایک نظام حیات ہے، یہاں ذریعہ معاش ہے جو شخص الیکشن پر زرکثیر خرچ کرتا ہے اسے بخوبی علم ہوتا ہے کہ اس کی بمعہ سود وصولی کس طرح ہونی ہے ۔ووٹ حاصل کرنے کے لیے کون سے ہتھکنڈے استعمال کرنا ہیں۔
پرانے وقتوں میں جھرلو کا استعمال ہوتا تھا وہ طریقہ اب پرانا اور دقیانوس ہو گیا ہے۔ ذہن اس کے نت نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ کمپیوٹر فراڈ، اپنی پسند کا الیکشن کمیشن، اپنی مرضی کا پولنگ سٹاف، دربانوں کی طرح چاک و چوبند بیورو کریسی، زر خرید میڈیا، فرضی گیلپ پول، عمران خان سادہ لوح انسان ہے۔ پینتیس پنکچروں کا واویلا کرتا رہا۔ یہاں صورت حال یہ ہے کہ پنبہ کجا کجا نہم۔
سیاست و جمہوریت لازم ملزوم ہیں ،گو سیاست کے معانی بہت وسیع ہیں۔ غالب نے سیاست دربان کا ذکر کیا تھا اگر فرق ہے تو اتنا کہ یہاں دربان، میٹر ریڈر، زلف تراش، بلیک کرنے والے اور ایسی قبیل کے بے شمار لوگ ممتاز سیاست دان بن گئے ہیںکسی دل جلے نے پھبتی کسی تھی۔
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
تماش بینوں کی ایک طویل فہرست ہے جو اپنے نادر بیانات سے طفنن طبع کے اسباب فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ایک صاحب فرماتے ہیں ن لیگ اور اپوزیشن پارٹیوں کی چپقلش سے تیسری قوت کو موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ جمہوریت کو پٹڑی سے اتار دے۔ قطع نظر اس بات کے کہ اسی جمہوریت کی بدولت حضرت کیا سے کیا بن گئے ہیں، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ ہیں کیا؟ آپ کی حیثیت کیا ہے؟ یہ کوئی بجلی کا میٹر نہیں ہے کہ آپ جب چاہیں اسے چلنے دیں جب جی کرے روک دیں۔ بالفرض تیسری قوت نے آنے کا ارادہ کر لیا تو آپ پہلے شخص ہوں گے جو مبارک، مبارک کا نعرہ بلند کریں گے۔ جو گیم یہ کھیل رہے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
عزیزی بلاول کچھ بھی کہتا رہے، اصل پتے انہوں نے پکڑ رکھے ہیں، یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ گندم کے ساتھ گھن بھی پس جائے۔ احتساب کی صورت میں ان کی اور ان کے گھڑ سوار باس کی باری بھی آنی ہے۔ تحریک چلنے کی صورت میں انہوں نے عمران خان کو بیچ منجدھار چھوڑ جانا ہے۔
میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ بظاہر تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ ٹکرانے کا عزم کر لیا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے۔ تحریک کو روکنے کا یہ نہایت ہی موثر طریقہ ہے۔ خان کو کہا جائے گا کہ مقدمہ زیر سماعت ہے اس لیے فوری تحریک کا جواز نہیں بنتا۔ مقدمہ طوالت اختیار کرے گا اور بالآخر ’عدم ثبوت‘ کی بنا پر خارج ہو جائے گا۔
پانامہ لیکس ہوں یا لندن کی پراپرٹی، دستاویزی ثبوت کہاں سے آئے گا؟ اگر سپریم کورٹ تمام تر کوشش کے باوجود سوئٹزر لینڈ کے چھ کروڑ ڈالر نہیں منگوا سکی تو الیکشن کمیشن نے کیا کارنامہ سرانجام دینا ہے۔ بالفرض میاں صاحبان نے شاہ صاحب کے Meteoric Rise کا حساب مانگ لیا تو پھر کیا ہو گا؟ ناکامی کی صورت میں انہوں نے خان کو کہنا ہے۔ ’’ہن جان دیئو‘‘ ہم مہذب لوگ ہیں ہمیں قانون کا احترام کرنا چاہیے۔
ان کے علاوہ بھی تماش بینوں کی ایک طویل فہرست ہے ۔ایک جملہ ہر سیاست دان نے حرز جان بنا رکھا ہے۔ ’’مجھ پر کرپشن کا الزام ثابت ہو گیا تو سیاست چھوڑ دوں گا‘‘۔ الزام کیسے ثابت ہو گا؟ کون کروڑوں روپے قانونی چارہ جوئی پر صرف کرے گا۔ پھر نتیجہ کیا نکلے گا؟
کہتے ہیں دو آدمیوں نے بحث کرتے ہوئے شرط رکھ دی۔ پہلا کہتا تھا دو اور چار ہوتے ہیں۔ دوسرے کا اصرار تھا کہ چار نہیں پانچ ہوتے ہیں۔ کسی شخص نے دوسرے کو مشورہ دیا شرط نہ لگائو ہار جائو گے! بولا۔ میں مانوں گا تو ہاروں گا! یہی حال ان سیاستدانوں کا ہے اگر رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائیں تو جرم کی صحت سے انکار کر دیں گے، پکڑنے والے کو کہیں گے آپ Eyes Test کرائیں، آپ کو ضعف بصارت کا عارضہ لاحق ہے۔
ایک صاحب نے اسمبلی میں فرمایا اگر مجھ پر بیرون ملک ایک کوڑی کی جائیداد ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ انہوں نے تکنیکی اعتبار سے درست کہا ہے۔ اگر ساری جائیداد بچوں کے نام کر دی جائے یا ان کے نام پر خریدی جائے تو پھر ثبوت کہاں سے آئے گا۔ یہاں بے شمار لوگ ہیں جن کے تصرف میں فینسی گاڑیوں کا ارمیڈا ہوتا ہے لیکن ان کے اپنے نام پر ہرکولیس کی سائیکل تک نہیں ہوتی۔ انہیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے اگر روم میں رہنا ہے تو پھر رومیوں جیسا رویہ اختیار کر لینا چاہیے۔ دراصل جس روم میں ہم سانس لے رہے ہیں وہاں منافقت، جھوٹ، مکروفریب، ریاکاری، سکہ رائج الوقت ہیں۔
ایک وقت تھا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں سخت ان بن تھی۔ یہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک سمجھتا تھا تو دوسرا پہلے کو عصر حاضر کا راسپوتین کہتا تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کرائے جاتے تھے۔
شیخ رشید ٹائپ لوگوں کے ذریعے پگڑیاں اچھلتی تھیں۔ بڑی دیر کے بعد انہیں احساس ہوا کہ ایک راہ کے مسافروں کو دست و گریبان نہیں ہونا چاہیے جب ملک میں دو ہی طاقتیں ہیں تو مناقشت چہ منی دارد! باریاں لگنی چاہئیں۔
اب ہو گا کیا؟ کچھ عرصہ بعد وہی نعرہ بلند ہو گا جو تقسیم سے قبل پنجاب کے سابق ’’شیطان‘‘ خضر حیات کے متعلق لگا تھا۔ تازہ خبر آئی ہے کہ زرداری نواز کا بھائی ہے۔ ہمارے بھولے خان صاحب جہانگیر ترین کے جہاز پر سولو فلائٹ کرتے نظر آئیں گے۔ جہاز کی کھڑکی سے نیچے زمین کی طرف دیکھتے ہوئے استفسار کریں گے۔ لینڈنگ کہاں کرنی ہے؟

مزیدخبریں