اگر اخلاقی حیثیت مضبوط اور موقف بھی درست ہو تو عزم کی فتوحات عموماً ممکن ہو جایا کرتی ہیں۔ ایک مثال مہاتیر محمد کی ہے کہ امریکی ایجنڈے نے ملائشیاء کو اپنا معاشی غلام اور کالونی بنا رکھا تھا مگر مہاتیر محمد امریکی ایجنڈے کے سامنے ڈٹ گئے اور بالآخر فتح پائی‘ عوام بھی انکے عاشق ہوگئے۔ مہاتیر محمد ریاستی استحکام وترقی کیلئے بہت زیادہ آزادیوں کو زہر قاتل تصور کرتے تھے۔ دوسرا عزم طیب اردوان کا ہے۔ تیسرا ماڈل سعودی ڈپٹی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ہے۔ تیل چونکہ عرب سیاست کا کامیاب ہتھیار رہا ہے اور دنیا میں عرب تیل کی قیادت سعودی عرب کے پاس ہے۔ شیل امریکی تیل کی دریافت میں کتنا ریسرچ اور جدوجہد ہوگی؟ سعودی عرب اور پاکستان نے تاریخی طورپر دہشتگردی کیخلاف مسلسل عزم پیش کیا‘ مظلوموں کی ہمیشہ ہی مدد کی۔ بطور خاص شاہ عبداللہ آل سعود نے دہشتگردی کیخلاف بہت سخت موقف پیش کیا تھا۔ اقوام متحدہ میں اینٹی ٹرر ازم شعبہ کے قیام کا نظریہ پیش کیا اور پیشکش کی کہ سعودی عرب کو دہشتگردی کیخلاف کارکردگی کیلئے اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم دیدیا جائے تو وہ خود سارے اخراجات برداشت کرلیں گے۔ چونکہ حرمین شریفین کی روحانی خدمت کا منصب سعودی عرب کے پاس ہے اور وہ روحانی طور پر راہنمائی بھی رکھتا ہے۔ لہذا امریکہ ومغرب نے شاہ عبداللہ کی ہر کوشش کو سازشوں سے ناکام بنا دیا کیونکہ امریکی عزم تو مشرق وسطی کی نئی جغرافیائی تقسیم کے ایجنڈے پر کام کررہا تھا اور بدقسمتی سے اس امریکی ایجنڈے میں متبادل قیادت عربوں کے پاس نہیں بلکہ ایران کو دینے کی حکمت عملی تھی۔ ہمیشہ سعودی عرب کو 9/11 میں کچھ سعودیوں کے کردار کی وجہ سے بلیک میل کیا گیا جبکہ 9/11 میں جن سعودیوں یا مصریوں نے عملاً حصہ لیا وہ امریکی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے ’’منصوبے‘‘ سے لیا گیا اس پہلو کو ہمیشہ تحقیقات میں دبا دیا گیا۔ جس طرح جنرل ضیاء الحق کے طیارے کی ہر تحقیق کو امریکہ نے دبا دیا تھا۔ سعودی عرب نے صدام حسین کے بعد عراق کو متحد رکھنے کیلئے سنی عوام کو ان کا سیاسی حق دینے پر اصرار کیا مگر کرپٹ ترین نور المالکی کے ذریعے امریکہ اور ایران نے اس سعودی درست اور جائز موقف کو کچل دیا۔ داعش کو جو زندگی ملی اسکی بناوٹ میں صدام حسین کے فوجی بطور خاص اہمیت رکھتے تھے۔ صدام بھی سعودی دشمن تھا۔ شام میں بشار الاسد کے باپ نے 80 فیصد سنی عوام کو غلام بنایا ہوا تھا اور علوی اقلیت کو ریاست‘ سیاست‘ معیشت میں حاکم خاندان کی حیثیت حاصل تھی۔ سعودی وخلیجی موقف مظلوم شامیوں کیلئے واضح طور پرقرآنی تعلیمات اور احکامات کی تعمیل پر مشتمل ہے مگر امریکہ نے ایران کو مکمل کردار کی فضا دی اور اس سنی اپوزیشن کو مسلح نہ کیا جو بشار کی متبادل تھی اور القاعدہ و داعش سے بھی متنفر تھی۔ روس کا چونکہ ایک ہی بحری اڈا شام میں ہے لہذا روس اپنے مفادات کیلئے سعودی خلیجی موقف کو کچلتا رہا اور ایران کی سیاست کو عراق و شام میں محفوظ بناتا رہا۔ مگر سعودی ذہن نے اس مسلسل شکست پر ہتھیار ہرگز نہیں ڈالے۔ سفارتی جنگ کو بار بار تیز کیا اور تبدیل بھی کیا۔ حتیٰ کہ ماسکو میں سعودی روسی وزراء خارجہ میں مفاہمت ہو گئی اور یوں شام میں روس نے سعودی و خلیجی موقف کی سچائی کو تسلیم کر لیا اور بشار الاسد کے کردار کے خاتمے اور نئی عارضی حکومت جس میں سعودی و خلیجی موقف و مدد کی حامل اپوزیشن کو وزارتی کردار دینے کو تسلیم کر لیا۔ اب امریکہ و روس دونوں ہی بشارالاسد کو منظر سے ہٹانے پر متفق ہو چکے ہیں اس کامیابی میں شہزادہ محمد بن سلمان کا بنیادی کردار ہے۔ محمد بن سلمان نے تیل معیشت پر انحصار ختم کیا اور آمدن کے نئے ذرائع سعودی عرب کیلئے اپنانے اور دریافت کرنے پر بہت سے دماغوں کو استعمال کیا۔ ٹورازم اورتاریخی مقامات کو بھی حج و عمرہ زائرین کیلئے کھولا جا رہاہے شہزادہ محمد بن سلیمان نے گزشتہ ہفتے صداوبامہ سے اوول آفس میں طویل ملاقات کی۔ ان کا امریکی دورہ ایک ہفتے پر مشتمل تھا اس میں صدر اوبامہ نے شام میں سعودی موقف کی صحت کو تسلیم کر لیاہے لہذا ایران کو روس اور امریکہ دونوں سے اب پسپائی درپیش ہے جبکہ سعودی و خلیجی موقف کو زیادہ اہمیت حاصل ہو رہی ہے۔ شہزادہ محمد بن سلیمان نے امریکی فیصلہ سازوں کو مجبور کر دیا کہ 9/11 کے حوالے سے تحقیقات میں سعودی عرب پر غلط طورپر مسلط کردہ الزامات واپس لئے جائیں۔ دو ہفتے پہلے امریکی تحقیقاتی ادارے کے سربراہ نے باضابطہ طورپر سعودی موقف کو تسلیم کر لیاہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی عمر 30 سال ہے اور اسکی صرف ایک بیوی ہے۔ وہ پروٹوکول میں تیسری جگہ پاتے ہیں۔ (1 ) شاہ سلیمان (2) ولی عہد محمد بن نایف وزیر داخلہ جن کی دہشت گردی بطور خاص القاعدہ کے خلاف طویل مدتی خدمات ہیں (3) ڈپٹی ولی عہد محمد بن سلمان۔ شہزادہ محمد سعودی عزم کا وہی کردار ہے جو کبھی خود عبدالعزیز آل سعود اور شاہ فیصل ہوا کرتے تھے۔ کیا پاکستان میں وہی اخلاقی معیار ہے قیادت و حکمرانی کا جو مہاتیر محمد اور طیب اردوان کے پاس ہے؟ کیا پاکستانی اشرافیہ اور موروثی سیاست کے پاس معمولی سا وہ اخلاقی کردار ہے جس کا اظہار برطانوی جمہوری وزیراعظم کیمرون نے برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کے فیصلے کے ساتھ مستعفی ہو کر دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے؟ ڈاکٹر طاہر القادری تو خیر مداری اور کھیل تماشے کے ذریعے مذہبی اقتدارچاہتے ہیں جو انہیں کبھی بھی نہیں مل سکے گا کیونکہ بنیادی طورپر وہ میاں شریف جیسے عظیم محسن کے نمک حرام ہیں۔ مگر عمران خان کو جو پذیرائی حاصل ہے اصل میں وہ ہمارے زرداری عہد اور موجودہ محبوب لیگی عہد کی غیر اخلاقی مسلسل حیثیت کی عطا کردہ ہے ورنہ اقتدار میں تو ہمیں عمران بھی آتے نظر نہیں آتے۔ کاش پاکستانی قیادت میں کوئی طیب اردوان یا شہزادہ محمد بن سلمان جیسا کوئی ہوتا تو پاکستان زوال و انحطاط سے نجات کا راستہ پا سکتا مگر صد افسوس ہمارے ہاں اخلاقیات اور اسکے تقاضے ناپسندیدہ ہوتے ہیں سعودی عزم تو بالکل ہی ناپید ہے۔