کشمیر پر بھارتی ڈکٹیشن نہیں لیں گے خارجہ پالیسی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت سے بنارہے ہیں:سرتاج عزیز

اسلام آباد (نیٹ نیوز+ ایجنسیاں) وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھارت سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے، کل بھوشن یادیو کے خلاف ثبوت مکمل ہونے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی ٗ خارجہ پالیسی کی تیاری میں امریکی طرز پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کوساتھ لے کرچلتے ہیں ٗ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں چاہتے ٗ کچھ افغان طالبان دھڑے امن مذاکرات کے حامی اور کچھ مخالف ہیں، مستقبل میں امن مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے‘ بنگلہ دیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دئیے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں۔ وہ مدیران اور اینکر پرسنز کو خارجہ پالیسی کے تمام تر پہلوئوں اور ہمسایہ و دیگر ممالک سے تعلقات کے حوالہ سے اُبھرتے ہوئے چیلنجوں کے تناظر میں پاکستان کی حکمت عملی کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دے رہے تھے۔ اس موقع پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور ثقافتی ورثہ سینیٹر پرویز رشید، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی اور خارجہ سیکرٹری اعزاز احمد چودھری ان کے ساتھ تھے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ تمام جمہوری ملکوں میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے خارجہ پالیسی بنانے میں شامل ہوتے ہیں ٗہم بھی امریکہ کی طرح سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، کشمیر کے معاملے پر بھارت سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے، لائن آف کنٹرول پر کشیدگی نہیں چاہتے۔ کلبھوشن یادیو کا نیٹ ورک مکمل طور پر بے نقاب کرنے کی کوشش میں ہیں ٗ گرفتار’را ایجنٹ‘ کے خلاف ثبوت مکمل ہونے پر دوبارہ کارروائی شروع ہوگی۔ کچھ افغان طالبان دھڑے امن مذاکرات کے حامی اور کچھ مخالف ہیں، مستقبل میں امن مذاکرات انتہائی کٹھن ہوں گے، افغانستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا تنازعہ طے کرنا ہے، فریم ورک بنالیا ہے، دونوں ممالک کے ڈی جی ایم اوز ملیں گے ٗبارڈرکے قریب رہنے والے لوگوں کیلئے ویزا کی پابندی نہیں ہوگی تاہم 30 سے 35 ہزار دیگر لوگوں کو ویزا کے بغیر نہیں آنے دیا جائیگا۔ مشیرخارجہ سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ ایرانی صدر کے دورے کے موقع پر کل بھوشن یادیو کے حوالے سے جو تنازعہ پیدا ہوا اس پر کیا کہیں گے؟۔ سرتاج عزیز نے کہاکہ معاملے پر ایرانی صدر بھی ٹھیک تھے اور سکیورٹی ادارے بھی ٹھیک کہہ رہے تھے، ایرانی حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد معاملہ کلیئرہوگیا تھا، ایران کے ساتھ تعلقات میں اب کوئی مسئلہ نہیں۔ بنگلادیش میں سیاسی رہنماؤں کو پھانسیاں دیئے جانے کے معاملے پر ہمیں تحفظات ہیں، انسانی حقوق کے اداروں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ این ایس جی کی رکنیت سے متعلق انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کے خلاف 17 ممالک کے وزرائے اعظم کو خطوط لکھے ہیں جو ریکارڈ کا حصہ ہیں ٗ یہ پاکستان کی بھرپور سفارتی لابنگ کا نتیجہ ہے جس کے باعث بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) میں شمولیت حاصل نہ کرسکا۔ پاکستان کا طالبان پر کچھ اثر و رسوخ رہا ہے تاہم جب آپریشن ضرب عضب شروع ہوا ہے تب سے زیادہ تر طالبان افغانستان منتقل ہو گئے اور ان کی لڑائی کی زیادہ تر صلاحیت اب افغانستان کے اندر ہے۔ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ مذاکرات کب دوبارہ شروع ہوں گے لیکن پاکستان اس مقصد کیلئے کوششیں جاری رکھے گا تاہم مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے ہیں‘ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کیلئے سرحدی انتظامات کرنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد میں ہے، دہشت گردی کے انسداد کیلئے دونوں اطراف کی طرف سے کی جانے والی کوششیں بہت اہم ہیں۔ پاکستان اپنی افغان پالیسی کا پہلے ہی جائزہ لے چکا ہے اب افغان امور میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس کے افغان گروپوں میں کوئی پسندیدہ نہیں۔ بھارت کے ساتھ مذاکرات کے ایجنڈا میں کشمیر کا مسئلہ سرفہرست ہو گا۔ بھارت کے ساتھ سب سے پہلے کشمیر پر بات ہو گی تاہم انہوں نے کہا بھارت پاکستان کے ساتھ بات چیت نہ کرنے کے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ آپریشن ضرب عضب سے دنیا میں پاکستان کا تشخص بہتر ہوا ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ خارجہ پالیسی اجاگر کرنے میں مثتب کردار ادا کریں۔ چین دنیا میں بڑی معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے۔ چین اور پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں گے‘ شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی رکنیت خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہے‘ پرُامن ہمسائیگی وزیراعظم نوازشریف کا وژن ہے۔ پاکستان افغانستان میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ افغانستان میں امن حکومت کی ترجیحات میں سے ایک ہے۔ سرحد پر غیرقانونی نقل و حرکت روکنے کیلئے افغانستان کے ساتھ سرحدی انتظام مستحکم بنایا جا رہا ہے۔ اب افغان باشندوں کو مستند دستاویزات کے بغیر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی وضع کی ہے۔ یہ پاکستان کی بھرپور سفارتی لابنگ کا نتیجہ ہے کہ بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت حاصل نہ کر سکا۔ وزیراعظم نوازشریف نے 17ممالک کے وزرائے اعظم کو ذاتی طور پر خطوط لکھے جو ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیاں بھارتی خفیہ ایجنٹ کل بھوشن یادیو کے خلاف مزید شواہد اکٹھے کر رہی ہیں جلد قانونی کارروائی کا آغاز ہو گا۔ سرتاج عزیز نے تسلیم کیا کہ حکومت پاکستان نے طالبان کی ’اچھے اور بُرے‘ طالبان کے طور پر تمیز کی‘ حکومت ’اچھے طالبان‘ گروپس کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں افغان طالبان مذاکرات کی دوبارہ بحالی میں آمادہ نظر نہیں آتے۔ حکومت قبائلی علاقوں میں تمام طالبان گروپس کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ طارق فاطمی سے بہترین تعلقات ہیں۔

ای پیپر دی نیشن