جمہوری نظام ْاورچیف جسٹس آف پاکستان کا اضطراب

Jun 28, 2019

چوہدری محمد افضل جٹ
چیف جسٹس آف پاکستا ن جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے جوڈیشنل اکیڈمی میں ماڈل کورٹس کے جج سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ادارہ ایمانداری اور دیانتداری سے اپنے فرائض انجام نہیں دے رہا جمہوریت کے ثمرات سے قوم ابھی تک محروم ہے پارلیمان میں منتخب نمائندوں کا کردار انتہائی مایوس کن ہے ملکی معیشت کومے میں ہے کسی طرف سے بھی کوئی اچھی خبر دیکھنے کو نہیں مل رہی یہاں تک کہ کرکٹ کے میدانوں سے بھی قوم کومایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا ایسے ماحول میں صرف عدلیہ کی طرف سے ہی اچھی خبریں آ رہی ہیں جناب چیف جسٹس نے سول،فیملی اور مجسٹریٹ کورٹ کو بھی ماڈل کورٹس کے دائرے میں لانے کا اعلان کیا اورکہا کہ ہر کورٹس میں ایک جج کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ قوم کو سستا،فوری اور جلد انصاف مل سکے انہوں نے کہا کہ زیر التواء فوجداری مقدمات کو جلدی ختم کر دیا جائے گا اور پھر زنجیر عدل ہوگی جو بھی اس زنجیر کو ہلائے گا اس کی فورا ْداد رسی کی جائے گی خلق خدا کو انصاف فراہم کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جائے گا محترم جناب چیف جسٹس صاحب نے ملک کے سیاسی ،سماجی،معاشی اور عدالتی نظام کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا وہ قوم کے جذبات اور منگوں کا ترجمان ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ عدل و انصاف معاشرے کی تعمیرو ترقی ،امن و آشتی اور باہمی رواداری میںاہم کردار ادا کرتا ہے اور جس معاشرے کی اساس عدل و انصاف کے پیمانوں پر ہو وہ معاشرے اور قومیں ہی ترقی و خوشحالی کی معراج پر پہنچتی ہیں مگر افسوس کہ عدل و انصاف کی قسمیں کھانے اور اس کی عظمت و توقیرکو محترم جاننے والوں نے بھی بہت سی کوتاہیاں اور غلطیاں کیں جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ہمارے معاشرے میں ،،جس کی لاٹھی اس کی بھینس ،،کا رواج پروان چڑھ گیا انصاف کا متلاشی عدل سے محروم ہو گیا ظالم اور غاصب دولت کے بل بوتے پر انصاف خرید کر معززو محترم ٹھہراعدلیہ کی تاریخ ایسے شرمناک اور گھنائونے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جہاں سکوں کی جھنکار میں منصفو ں نے عدل کے سب تضا ضوں کو بھلا دیا۔
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
چیف جسٹس آف پاکستان نے وطن عزیز کی سیاسی،سماجی اور معاشی منظر کے بارے میں اپنے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ واقعی قابل تشویش اور نا قابل تردید ہیں ضیاء الحق کا اسلامی مارشل لاء ہو یا پرویز مشرف کی اعتدال پسند آمریّت ،مسلم لیگ کی مذہبی جمہوریت ہو یا پیپلز پارٹی کی لبرل ڈیموکریسی ۔سب ادوار میں قوم کو ہی لوٹا گیا قومی امنگوں اور آرزئووں کا خون کیا گیا سب ادوار ہی قوم پر بھاری ہوئے اس کے باوجودقوم نے حوصلہ نہیں ہارا اور نہ ہی ان کا جذبہ حبّ الوطنی کم ہوا بلکہ جب بھی مملکت خدادا پاکستان پر کڑا اور مشکل دور آیا تو یہ قوم وطن کی محبت میں سب اختلافات کو بھول گئی ۔
موسم آیا تو نخل دار پر میر سر منصور کا ہی بار آیا
لیکن جب بئیمانی،لوٹ مار ،بددیانتی ،بے ایمانی اور معاشی بدحالی نے چوربازاری کی ساری حدوں کو پار کر لیا تو عوام نے کرپشن،اقرباء پروری اور نا انصافی کے گلے سڑے اور بدبو دار نظام سے نجات کے لئے عمران خان کو اپنا نجات دہندہ مان لیا کیونکہ خان صاحب نے قوم ے کہا تھا کہ وہ نا انصافی ،اقرباء پروری ،ظلم و جبرکے استحصالی اور لوٹ مار کے مکروہ نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے اہلیان وطن کو ریاست مدینہ کی شکل میں ایک ،،نیا پاکستا ن ،،دیں گے مگر خان صاحب ملک کے سب سے مقدس اور معتبر منصب پر براجمان ہونے کے بعد اپنے تمام وعدوں اور دعووں کو شاید بھول گئے ہیں تبھی تو میرے وزیراعظم نے اداروں کو انہی کم ظرفوں کی سر پرستی میں دیا ہے جن کے کالے کرتوتوں سے ملک کا یہ حال ہواہے جو ایمانداری اور دیانتداری کے قرینوں سے ہی نا آشناء ہیں جو بئیمانی اور بے ایمانی کے ماحول میں پل کر جوان ہوئے ہیں کمزوروں اور ناداروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا جن کا شیواء ہے مزدوروں اور غریبوں کا حق غصب کرنا جن کا خاندانی پیشہ ہے ۔
بیمار ہوئے جن کے سبب میر
ہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ ملکی دولت لوٹنے والوں،اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھانے والوں،منی لانڈرنگ سے قومی معیشت کو نقصان پہنچانے والوںاور کرپشن بددیانتی سے اپنے کاروبار کو وسعت دینے والوں کو پکڑا جا رہا ہے مگر اس کا فائدہ ملک و قوم کو تبھی ہو گا جب ان لٹیروں سے لوٹا ہوا مال برآمدکیا جائے گا
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب کے دس ماہ کے عہد اقتدار میں مہنگائی کا جو سیلاب آیا ہے وہ اہل وطن کی ہر خوشی کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا ہے غریب مزدور کی زندگی مسائل و مشکلات میں گھر چکی ہے اور خان صاحب یہی فرما رہے ہیں ،،کہ گھبرانا نہیں،،
موسم کی طرح بدلتے ہیں اس کے عہد
اوپر سے یہ ضد ہے کہ مجھ پے اعتبارکرو ۔۔۔۔۔گھبرانا نہیں۔۔
شاید چیف جسٹس نے انہی حالات کے پیرائے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اگر عمران خان بھی اس نظام کو تبدیل نہ کر سکا تو پھر کیا ہو گا۔پھر وہی ہو گا جو ایران میں ہوا،،فرانس میں ہوا۔
چیف جسٹس صاحب آپ صاحب علم ہیں صاحب ادراک ہیں اللہ رب العزت نے آپ کو فہم و فراست کی بے پناہ دولت سے نواز رکھا ہے۔مگر یاد رہے جس معاشرے میں عدل وانصاف ہو وہ معاشرہ کبھی تباہ و برباد نہیں ہو سکتا۔۔
برطانیہ کے آنجہانی وزیراعظم سرونسٹن چرچل سے دوسری جنگ عظیم کے دوران جب برطانوی شہریوں نے کہا کہ کیا جنگ و جدل ے پھیلنے والی اس تباہی سے ہمارا ملک نکل پائے گا تو آنجہانی وزیر اعظم نے کہا کہ کیا عدالتیں برطانیہ میں انصاف کر رہی ہیں اگر عدلیہ انصاف کے تقاضے پورے کر رہی ہے تو پھر جنگ اور تباہی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی قوم اپنے پیروں پر جلدی کھڑی ہو جائے گی۔۔
خدا کرے کہ عدل کی فراہمی کے سلسلے میں چیف جسٹس کی سعی بار آور ہو اور لوگوں کو انصاف ملے عدل کا پیمانہ امیر اور غریب کے لئے یکساں ہو مظلوم کو انصاف ملے اور ظالم اپنے انجام کو پہنچے کمزور کی داد رسی ہو اور طاقت ور کسی نادار کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی جسارت نہ کرے،تو یقین مانیں ہمارا پیارا وطن قلیل عرصے میں ہی ترقی و خوشحالی ان منزلوں پر پہنچ جائے گا جس پر قوموں نے پہنچنے کے لئے صدیوں کا سفر طے کیا ۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

مزیدخبریں