لکھتے لکھتے تھک گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔!!

زندگی کے سفر میں کبھی ایسے موڑ بھی آتے ہیں جب انسان امید اور نا امیدی کے دوراہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ امید اور نا امید ی کا ایسا ہی ایک لمحہ جب تاریکی ہر طرف سے اپنی لپیٹ میں لے لے اور مایوسی کے اندھیروں میں کچھ دکھائی نہ دے ایک ایسی ہستی کے ہونے کا احساس اور یقین روح کو پھر سے زندہ کر دیتا ہے۔ جس کے پاس کن کی طاقت ہے۔ جس کا ایک اشارہ انہونی کو ہونی میں بدل دیتا ہے۔ امید۔۔۔ اﷲ کا یقین ، ناامیدی۔۔۔ اﷲ کا انکار، ایسی ذات کا انکار جو ہر چیز پر قادر ہے۔ اسی لئے نا امیدی کو کفر کہا گیا ہے ’ ’خدا کی رحمت سے نا امید نہ ہو کہ خدا کی رحمت سے صرف کافرہی نا امید ہوتے ہیں‘‘ (سور ۃ یوسف )۔ اﷲ کی طرف دیکھ کے امید پیدا ہوتی ہے اور دنیا کے دامن میں صرف نا امیدی۔۔۔ اگر کسی کے دل میں اﷲ کو پانے کی جستجو ہے تو بس اس امید اور نا امیدی کے بیچ میں اﷲہے۔
دنیا کو اس وقت جس بے یقینی اور نا امیدی کے حالات درپیش ہیں ان میں ایک انسان کا نارمل زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے ۔ آئے دن ایسے ایسے شاندار ہیرے جیسے لوگوں کے بچھڑنے کی اطلاعات مل رہی ہیں کہ دل شدید مضطرب ہے ۔ کورونا کی وبا کی لپیٹ میں دنیا کو آئے تقریبا چھے ماہ ہونے والے ہیں ۔ اب تک دنیا بھر میں ایک کروڑ کے قریب لوگ اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں اور پانچ لاکھ کے قریب اموات ہو چکی ہیں ۔ پاکستان میں دو لا کھ لوگ ابھی تک کورونا سے متاثر ہوئے ہیں جب کہ چار ہزار سے زائد لوگ خالق حقیقی سے جا ملے ہیں اور آج بھی حالات اتنے ہی بے یقین ہیں جتنے آج سے چھے ما ہ پہلے تھے۔ لاک ڈائون ، کبھی سمارٹ لاک ڈائون ، کبھی سارے کاروبار حیات کھول کے ہر طرح کے طریقے آزمائے جا رہے ہیں کہ کسی طرح اس عفریت سے نجات ممکن ہو سکے لیکن ابھی تک کوئی ایسی تدبیر نہیں جو مکمل طور پر کار گر ثابت ہوئی ہو ۔
محض پچھلے چند دنوں میں ایسے ایسے بہترین لوگ تہہ خاک ہو گئے جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔ آزردگی اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب بچھڑنے والے ایسے نایاب لوگ ہوں کہ جن کی کمی ہمیشہ محسوس کی جائے گی۔ دیکھتی آنکھوں ، سنتے کانوں سے آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے جس جملے کی گونج سنتے سنتے ہمارا بچپن گزرا ، پاکستان ٹیلی ویژن سے آن ائیر ہونے والی پہلی آواز ، پاکستان ٹی وی کے طویل ترین پروگرام نیلام گھر کے ہوسٹ ، شاعر ، سیاست دان سب سے بڑھ کے ایک بہترین انسان ۱۷ جون کو آخری سلام کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ طارق عزیز کو بچھڑے ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ بیس جون کو جامعہ بنوریہ کراچی کے مفتی نعیم کی وفات کی خبر اور غمزدہ کر گئی ۔ ان کا شمار ان علماء کرام میں ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ اتحاد ، امن اور بھائی چارے کا درس دیا ۔آپ کئی مشہور کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ مفتی نعیم وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس شوری اور عاملہ کے متحر ک ر کن تھے ۔ان کی وفات کے ایک دن بعد اکیس جون کومعروف خطیب علامہ طالب جوہری کا انتقال ہو گیا ۔ اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے علامہ طالب جوہری نہ صرف کئی کتب کے مصنف تھے بلکہ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے۔ ’’ تم نے گریہ کیا، مجلس تمام ہوئی اور اب تو دامن وقت میں گنجائش بھی نہیں‘‘ ۔
ہر طرف سے موت کی آغوش میںجانے والوں کی غمناک خبروں میں اچانک پنجاب یونیو رسٹی کے شعبہ ابلاغ و صحافت سے تعلق رکھنے والے پرو فیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی وفات کی خبر غم کو اور بڑھا گئی ۔ کورونا وائرس نے ہم سے ایک اور ہیرا چھین لیا ۔ صحافت ایک عظیم استاد سے محروم ہو گئی ۔ پروفیسر صاحب ایک غیر معمولی ، مخلص اور انتھک محنت کرنے والے استاد تھے ۔ نوجوانوںکو سکھانے والے اور ہر قدم پہ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والے پروفیسر مغیث ہما را ایک قومی اثاثہ تھے ۔ افسردگی کے انہی لمحات میں جمعے کے روز سید منور حسن صاحب کی وفات کی خبربھی کسی سانحہ سے کم نہیں تھی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن صاحب ایک عہد کا نام ہے جو تمام ہوا۔ وہ ایک پروقار ، نفیس شخصیت کے مالک ، حق بات کرنے والے اور حق پہ ڈٹے رہنے والے نظریاتی، درویش انسان تھے۔ ان کی موت ایک ایسا نقصان ہے جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا ۔ منور حسن صاحب کے بارے میں کسی نے اتنا خوبصورت جملہ کہا کہ وہ اپنی نوعیت کا ایک ہی شخص تھاجو ہماری کوتاہیوں اورکمزوریوں کا کفارہ تھا۔ اندھوں کی بستی میں آوازیں لگاتا ایک آئینہ بردار تھا۔یہ تما م مرحومین لاکھوں لوگوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں ان شخصیات کی کمی برسوں محسوس کی جائے گی۔یہ ہمارا اتنا بڑا قومی نقصان ہے جس کی تلافی کسی طور ممکن نہیں ۔
موت کا رقص جاری ہے جس نے ہمارے کتنے ہی پیاروں کو ہم سے جدا کر دیا ہے ۔دیگر زندگی کے شعبہ جات سے جڑے بھی کتنے ہی لوگ ہم سے بچھڑ رہے ہیں ۔ ڈاکڑ ، انجینئر، اعلی تعلیم یافتہ ، ہنرمند لوگ کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی مرد و خواتین کو موت کے بے رحم پنجوں نے مٹی کے سپرد کر دیا ہے ۔ تمام مرحومین کی وفات پر جتنا دکھ کا اظہار کیا جائے کم ہے ۔ اللہ تعالی ان سب کی بخشش کرے اور ان کے لواحقین کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت اور توفیق دے ۔ کورونا کی وبا ابھی نجانے ہم سے اورہمارے کتنے ہی پیاروں کو چھین کے لے جائے گی۔ مایوسی و ناامیدی کے اس امتحان میں سے نکلنا صرف اسی صورت ممکن ہے کہ اللہ کے حضور اجتماعی استغفار کیا جائے ۔امید کے دامن کوتھامے اللہ کو دل سے پکارا جائے اس کے علاوہ اور کون ہے جو انسانیت کو مایوسی کے ان اندھیروں سے نکالے۔ ایسے میں نگاہیں صرف آسمان کی جانب ہی بار بار اٹھتی ہیں یااللہ رحم ، یا اللہ رحم
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...