پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسداد منشیات کا عالمی دن چھبیس جون کو منایا گیا جس کا مقصد معاشرے کے لوگوں میں منشیات کے مضر اثرات کو اجاگر اور آگاہی دینا تھا۔اس دن کے حوالے سے پاکستان کے مختلف شہروں میں واکس، مذاکرے اور تقاریب منعقد کی گئیں جن میں ماہرین منشیات نے اس کی سمگلنگ، اس کے استعمال اور اس کی تباہ کاریوں کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالی۔دنیا بھر میں کروڑوں افراد منشیات استعمال کر رہے ہیں جن میں کم عمر بچوں سے لے کر 65 سال کے بزرگ افراد بھی شامل ہیں، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں ہرسال اضافہ ہوتا ہے۔طبی و نفسیاتی ماہرین کے مطابق نئی نسل میں نشہ آور اشیا کے استعمال کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔دولت کی انتہائی فراوانی یا انتہائی غربت ہو دونوں صورتوں میں انسان کے بہکنے اور اس طرح کی خرافات میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ زیادہ دولت انسان کو مادیت پرست بنا دیتی ہے اور غربت کفر تک لے جاتی ہے۔اسی طرح دوستوں کی بری صحبت،اپنے مقاصد میں ناکامی،حالات کی بے چینی اور مایوسی، معاشرتی عدم مساوات ناانصافی، والدین کے گھریلو تنازعات بھی نشہ کے آغاز کے اسباب ہوسکتے ہیں۔انسداد منشیات کے عالمی دن کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد سے ہوا یہ قرارداد 1987ء میں منظور کی گئی۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کی رُو سے پاکستان میں نشہ استعمال کرنے والے افراد کی تعداد ستر لاکھ کے قریب ہے جن میں سے چار ملین یا چالیس لاکھ باقاعدگی سے نشہ کرتے ہیں ۔پاکستان نشہ کرنے والے افراد کے حوالے سے دنیا کے ان ممالک میں پہلے نمبر پر آ چکا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق پاکستان کے آٹھ لاکھ شہری ہیروئن کا استعمال باقاعدگی سے کرتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ استعمال ہونے والی ہیروئن کی مقدار کا تخمینہ چالیس ٹن سے زائد لگایا گیا ہے جبکہ مزید ایک سو ٹن ہیروئن افغانستان سے پاکستان لا کر بین الاقوامی منڈیوں میں بیچی جاتی ہے۔ ہر سال پاکستان میں منشیات کی تجارت سے حاصل کیے جانے والے کالے دھن کا تخمینہ 2 ارب ڈالر لگایاگیا ہے۔نشہ مختلف اقسام میں کیا جا رہا ہے۔ کہیں بھنگ تو کہیں چرس۔ بلوچستان میں تین لاکھ افراد منشیات استعمال کرتے ہیں۔اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والے 76 لاکھ افراد میں سے 78 فیصد مرد جبکہ 22 فیصد خواتین ہیں۔ہر سال پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں 40 ہزارنفوس کا مزید اضافہ ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک سمجھا جاتا ہے۔ ہر گزرتے روز کے ساتھ منشیات کے استعمال میں اضافہ عام بات بن چکی ہے۔ کم و بیش دس لاکھ افراد نشے کے مکمل طور پر عادی ہوچکے ہیں۔پنجاب میں بھی حالیہ برسوں کے دوران منشیات کے استعمال میں بے حد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
کورونا وائرس کی آمد اور پھیلائو نے انسانوں کوجہاں ایک نئی مشکل میں ڈالا ہے وہاں انہیں صحت کے بارے میں فکر مند اور خیال رکھنے کی طرف بھی مائل کیا ہے۔ اب لوگ صحت سے متعلق تحفظات کا اظہار کرتے ہیں اور صحت مند رہنے کے لئے حفاظتی اقدامات کرنے کی پہلے سے زیادہ کوشش کرتے ہیں۔کورونا کے بعد معاشرے میں یک یکجہتی کی مختلف طبقات اور ملکوں کے درمیان پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی اور تمام ممالک آپس میں اس بارے میں تحقیق پر تبادلہ خیال کرنے لگے ہیں۔2021 کے منشیات کے عالمی دن پر جو اہم نکات سامنے آئے ان میں آبادی کا تیزی سے پھیلائو ایک اہم مسئلہ ہے۔ترقی پذیر ممالک میں آبادی کی رفتار وہاں موجود وسائل سے کہیں زیادہ ہے۔ کورونا کے بعد منشیات کا بازار تیزی کے ساتھ گرم ہوا ہے۔ پوری دنیا میں منشیات کی منڈی میں پہلے سے زیادہ متحرک ہو گئی ہے جس کے تدارک کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں بھنگ کا استعمال پوری دنیا میں چار گنا بڑھ چکا ہے۔ تاہم، بھنگ کو نقصان دہ سمجھنے والے افراد کی تعداد میں 40 فی صد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس حوالے سے نوجوانوں کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور انہیں اس کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے تو منشیات کے استعمال سے ہونے والے صحت کے خطرات کے بارے میں شعور اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی اس ضمن میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔عالمی وبائی مرض کے دوران، ٹیکنالوجی میں جدت کا بہت زیادہ فائدہ اٹھایا گیا۔ کورونا میں بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال بہت زیادہ بڑھا ہے۔ منشیات کے استعمال سے متعلق امراض میں مبتلا افراد کے علاج اور صحت کی دیکھ بھال بھی اسی طریقہ سے کی جا سکتی ہے۔ ہم سب کو ٹیکنالوجی کے فوائد کو بڑھانے اور منشیات سے بچائو کے ڈیجیٹل طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہیے۔ کم آمدنی والے ممالک میں ایک مسئلہ اور بھی ہے اور وہ یہ کہ لوگ اگر منشیات کے چنگل سے نکلنا چاہتے ہیں تب بھی انہیں علاج کے لئے مہنگی ادویات کی ضرورت ہے جسے وہ افورڈ نہیں کر پاتے۔ بعض کوشش کرنے کے بعد جب مالی طور پر استطاعت نہیں رکھتے تو دوبارہ نشہ شروع کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ وہ لوگ جو منشیات استعمال کرتے ہیں اور کورونا کے اثرات کا بھی شکار ہیںانہیں کورونا سے نجات دلانے کے ساتھ ساتھ ان کو نشے سے چھٹکارا دلانا بھی اتنا ہی زیادہ ضروری ہے۔منشیات ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ منشیات کی لعنت کی وجہ سے سماجی، معاشرتی اور معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔اس کا دھندہ کرنے والے انسانیت کے قاتل ہیں اور منشیات کا مکروہ کاروبارکرنے والوں کی جگہ صرف جیل ہے۔ تعلیمی اداروں کے باہر منشیات کا کاروبار کرنے والوں اور نوجوان نسل کی رگوں میں زہر گھولنے والوں کو سخت سزائیں ملنی چاہئیں۔ منشیات کے عادی افراد کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ بدقسمتی سے کسی توجہ کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ منشیات کے عادی افراد کو بے چارگی اور کسمپرسی کی حالت میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جائے تو یہ ظلم کے مترادف ہوگا۔ منشیات کی عادت کا شکار لوگ نفرت سے زیادہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے انسداد منشیات فورس ہیڈ کواٹر کے دورے پر واضح کیا کہ منشیات کا خاتمہ ایک چیلنج ہے جس سے پورے معاشرے کو مل کر لڑنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اگر ستر اسی لاکھ افراد منشیات کا شکار ہیں تو ستر اسی لاکھ خاندان برے وقت سے گزر رہے ہیں۔وزیراعظم عمران خان نے اس عذاب سے معاشرے کو نجات دلانے کے لئے ہر طرح کے وسائل فراہم کرنے کی یقین دہائی کروائی ۔پنجاب میں بھی اس سلسلے میں بہت کام ہو رہا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے مطابق حکومت نے اس ضمن میں جدید ہسپتال بنایا ہے۔پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال ہے جہاں نشے کے عادی افراد کو معیاری علاج معالجے کی سہولتیں میسر ہیں۔
حکومت تو اپنا کام کر رہی ہے تاہم یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ منشیات کے خاتمے کیلئے حکومت کے ساتھ معاشرے کے دیگر طبقات کو بھی آگے آنا ہوگا اور منشیات سے پاک معاشرے کیلئے سب کو مل کر جدوجہد کرنی ہو گی۔