جولائی 2004ء میں اقوام متحدہ کی تنظیم کا اجلاس ہوا۔ اجلاس دنیا بھی میں بولی جانے والی عالمی زبانوں کے دن کی مناسبت سے تھا ، اس اجلاس میں پاکستان کے ایک سپوت کی یاد میں ان کی خدمات پر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ بدقسمتی ملاحظہ کیجئے کہ پاکستان میں اس شخصیت کو کوئی نہیں جانتا تھا اور ان کا تعلق خطہ کوہسار مری سے تھا علامہ مضطر عباسی پاکستان میں عالمی زبان اسپرانتو کے ماہر تھے ان کا سب سے بڑا کارنامہ جو رہتی دنیا تک انہیں زندہ رکھے گا وہ پوری دنیا میں پہلی شخصیت تھے جنہوں نے اسپرانتو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔ اسکی اشاعت پر پاکستان میں سعودی سفارت خانے نے اس زبان اور ترجمے کے معیار کے بارے میں دو سال تک تحقیقات کروائیں۔جن لوگوں نے وہ منظر دیکھا ہے انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ علامہ مضطر عباسی صاحب جب حیات تھے تو عثمان ولا کے ایک کمرے میں بلکہ ان کا کمرہ پورا کتب خانہ تھا اس کتب خانے میں انہوں نے بستر لگا رکھا تھا۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں کتب کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ ایک دن وہ اپنی لائبریری میں محو مطالعہ تھے کہ اٹلی کا ایک جوڑا آیا اور علامہ صاحب کا دامن پکڑ کر زمین پر بیٹھ گئے اور دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا انہوںنے اسپرانتو زبان میں قرآن کا مطالعہ کیا اور دونوں میاں بیوی دائرہ اسلام میںداخل ہو گئے۔ وہ علامہ صاحب کو ملنے
کیلئے اور شکریہ ادا کرنے مری میں آئے اور ان کا دامن تھام کراس لئے زارو قطار رو رہے تھے کہ اگر آپ نے یہی ترجمہ بہت پہلے کیا ہوتا تو ہم اپنے والدین کو مرنے سے کلمہ طیبہ پڑھا دیتے تاکہ وہ جہنم کی آگ سے محفوظ ہو جاتے۔ علامہ صاحب کے دار فانی کو الوداع کہنے سے پہلے تک پوری دنیا میں 70 سے زائد لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
سعودی حکومت نے جب اپنی تشکیک اور تحقیق کے سارے پیمانے آزمائے اور اسپرانتو زبان کے بارے میں معلومات مکمل کرنے اور ترجمہ کے معیار پر اس قدر خوش ہوئی کہ انہیں حکومت سعودی عرب کی طرف سے سرکاری مہمان کے طور پر اپنے اخراجات پر حج کرنے کی خوشخبری بھیجی تو وہ اس وقت تقریباً 80 سال کے قریب تھے عمر پیری میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سے تو اب سہارے کے بغیر اٹھنا اور بیٹھنا مشکل ہے تو انہوں نے اپنی جگہ اپنے شاگرد رشید کوحج پر بھیج دیا ہے۔ یہ بذات خود ایک شاندار نظیر ہے۔
علامہ مضطر عباسی بنیادی طور پر لسانیات کے استاد تھے۔ برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے قبل دلی کے قرب و جوار میں ایک سکول میں بطور استاد تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے وہاں پر ایک خاکروب کی بیٹی کی شادی تھی مگر ہیڈ ماسٹر اس وجہ سے دو دن کی چھٹی نہیں دے رہا تھاکہ اس کا متبادل نہیں ہے وہ خاکروب رو رہا تھا پوچھا کہ ماجرا کیا ہے؟ اس نے بتایا جس پر علامہ صاحب نے کہا کہ تمہارا کام میں کروں گا وہ ہیڈ ماسٹر کے پاس گئے اور کہا کہ اس کا کام اگر میں کر دوں تو
آپ کو اعتراض تو نہیں ؟ ہیڈ ماسٹر نے خاکروب کو دو دن کی چھٹی دے دی اور مضطر صاحب دن کو پڑھاتے اور رات کو سارے سکول میں جھاڑو دیتے اور غرقیاں صاف کرتے رہے آج بعض علامے تکبر کی وجہ سے عام آدمی کو بلانا تو کجا سلام کا جواب تک نہیں دیتے۔جس زبان کے پاکستان میں پہلے لسانی ماہر ہوتے کا نہیں اعزاز حاصل تھا ۔قارئین کیلئے اسپرانتو ایک نئی زبان ہے پہلی عالمی اورمصنوعی زبان 1879 ء میں ڈاکٹر ضامن ہوف کی سرپرستی میں جو کہ عربی اور عبرانی کے ماہر تھے۔ میں بیس ماہر لسانیات جو دنیا کی پانچ بڑی اور عالمی زبانوں کے ماہر تھے کئی دہائیوں کی عرق ریزی پر تیار کی اور اس کی پہلی کتاب 1887ء میں شائع ہوئی اب اسپرانتو زبان پر دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے جو کہ تین دن کی محنت سے سیکھی جا سکتی ہے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان سے بہت قلیل رفاقت میسر رہی اور انہوں نے میرے کالموں کے مجموعے کا سپرانتو زبان میں ترجہ بھی کیا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ علم دوستی علم کی ترغیب انسانیت کی فلاح ان کے قول و فعل سے جھلکتی تھی ۔ 26 فروری 2004 ء میں داعی اجل کو لبیک کہا ، انتقال سے پہلے بڑی حسرت سے کہتے تھے کہ اب جگہ بدلنے کا ارادہ ہے اور یہ کہ وہ جہاں تواس جہاں سے کروڑ ہا گنا بہتر ہو گا اس لئے اب دل بھر گیا ہے۔انتقال کے سال جولائی 2004ء میں یو این او کے عالمی اجلاس میں ایک منٹ کیلئے خاموشی ہمارے لئے لمحہ فکر ہے کہ ہم ایسی نابغہ روزگار شخصیات کو موت سے قبل روز ان کا’’ جنازہ ‘‘ نکالاکرتے تھے۔