پاکستانی عوام کی یہ دیرینہ خواہش رہی ہے کہ "مملکتِ خداداد پاکستان"ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے "عالمی مہاجنوں " کے شکنجے سے آزاد ہو کر خود اپنی معاشی اور مالیاتی پالیسیاں ترتیب دے۔ غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے انسانی اور قدرتی وسائل کو بروئے کارلاکر ملک کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنائے۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہر دور کے حکمرانوں نے غیر ملکی قرضوں کے سہارے ہی ملکی معیشت کو چلایا اورآج صورتحال یہ ہے کہ ہم 130ارب ڈالر سے زائد قرضوں کی دلدل میں پھنس چکے ہیں جبکہ ہم اِن قرضوں پر "سود در سود" بھی ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ہماری معیشت مکمل تبا ہی کے دہانے پر ہے جسے سنبھالا دینے کیلئے ہم اپنے دوست ممالک سے "دھڑا دھڑ"قرضے لینے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ارب 20کروڑ ڈالر کے مزید قرضے کے حصول کیلئے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کے نویں جائز ے کی رپورٹ کے تحت "سٹاف لیول معاہدہ"کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ دوسری طرف موجودہ پروگرام کی "بیل آوٹ مدت" 30جون 2023کو ختم ہورہی ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے مقررہ مدت کے اندر معاہدہ نہ ہو سکا تو ہماری تباہ حال معیشت مزید دبائو میں آجائیگی۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ناقص معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے "ڈیفالٹ "ہونے کی بھی "گھنٹیاں "بج رہی ہیں اور معاشی اور مالیاتی ا مور کے ماہر امریکی جریدے "بلوم برگ"، عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی"موڈیز"اور دیگر ادارے بھی انہی خطرات کی واضح طور پر نشان دہی کر رہے ہیں جبکہ ہمارے وزیرِ خزانہ اس ساری صورتحال کو "جیو پولیٹیکل گیم"قرادیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر بھی نظام معیشت چلا سکتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟۔ اگر یہ حکومت ایسی انہونی کر سکتی ہے تو پھر دیر کس بات کی۔ یہ حقیقت ہے کہ مسائل میں گھری ہوئی قومیں پورے حوصلے ، محنت، جذبے اور عزم صمیم کے ساتھ بہتر منصوبہ بندی کر کے جامع حکمتِ عملی کے ذریعے "مشکلات کے بھنور "سے باہر نکل آتی ہیں۔ یہ بات حیران کن حد تک تکلیف دہ ہے کہ ہم سونے، تانبے، کوئلے، گیس، تیل سمیت قیمتی معدنی خزانے رکھنے کے باوجود" کشکول گدائی" کیوں اٹھائے پھرتے ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق ہماری بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں 21فیصد کی ریکارڈ کمی ہو چکی ہے جبکہ ٹیکسٹائل اور اسٹیل انڈسٹری کے بندہونے کا خطرہ ہے۔ ہماری آٹو موبیل کی پیدا وار میں 46 فیصد، وڈ انڈسٹری64فیصد، ادویہ سازی 24فیصد ، سپورٹس گڈز، لیدر، سرجیکل الات ، کارپٹس اور دیگر صنعتوں کی پیدا وار میں بھی
نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ ہماری درمیانے اور چھوٹے درجے کی صنعتیں بجلی گیس پٹرول کے مہنگے ہونے اور ٹیکسوں میں اضافے کی وجہ سے اپنی پوری استعداد سے نہیں چل رہیں۔ ہماری برآمدی مصنوعات کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے ہماری مجموعی صنعتی پیداوار کا گراف بھی نیچے گر چکا ہے۔ صنعتی شعبے میں آنے والے بحران کی وجہ سے بے روزگاری کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس صنعتی بحران کی وجہ سے جہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی چاندی ہوگئی وہاں ہماری مارکیٹیں غیر ملکی مصنوعات سے بھر چکی ہیں اور سمگلنگ کا دھندا عروج پر ہے۔ دوسری طرف زرعی معیشت کے حامل ہمارے ملک کی زراعت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہماری غذائی اجناس خاس کر گندم سمیت تمام اہم فصلوں کی پیداوار کا گراف بھی مسلسل گر رہا ہے ، ہمارے زیرِ کاشت رقبے میں کمی اور فی ایکڑ پیداوار کم ہونے کی وجہ سے غذائی بحران پیدا ہوچکا ہے۔ ہماری ناقص پالیسیوں اور انتظامی کمزوریوں کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرخیز زرعی رقبے پر رہائشی سکیمیں بن چکی ہیں اور ابھی یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ اگر اس اہم مسئلے پر فوری قابو نہ پایا گیاتو ہم اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پورا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ کچھ دانشور ٹائپ لوگ پاکستان کے حالات کو سری لنکاسے مشابہہ قرار دے کراپنا "رانجھاراضی" کر رہے ہیں۔ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہمارے دوست ممالک اور سمندر پار پاکستانیوں کی ناقابلِ فراموش مدداور تعاون نے ہمیں ہر قدم پر سہارا دیا ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو اس مشکل ترین صورتحال سے کیسے باہر نکالنا ہے ؟ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو "جو معیشت کیلئے خون کی حیثیت رکھتے ہیں"کیسے ڈالروں سے بھرنا ہے؟ سرمایہ کاری تجارتی اور صنعتی شعبے کے "پہیئے کوکیسے تیز ترکرنا ہے؟ ہمیں بیمار صنعتوں کی بحالی اور ان کی استعداد کے مطابق چلانے کیلئے حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہمیں زرعی معیشت کی ہر وقت "بے تْکی اور بے کار بحث اور گردان " کی بجائے زرعی شعبے کو مضبوط کرنے کا سوچنا ہے؟ ہمیں ملک کو آنیوالے غذائی بحران سے بچانے اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ٹھوس اور جامع عملی اقدامات کرنے ہیں۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو بڑھا کر شرح نمو میں قابلِ قدر اضافہ کیسے کرنا ہے؟ خسارے پر چلنے والے قومی اداروں، خاص کر PIA، اسٹیل ملز، ریلویز ،پی بی سی کو نجکاری سے بچا کر بحال کرنا اور تباہ حال مینو فیکچرنگ سیکٹر کو مکمل فعال کرنا ہے اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات کے گراف کو حقیقی طور پر بڑھانے ، روزگار کے زرائع بڑھانے اور خاص کر تعلیم یا فتہ و ہنر مند افراد کی "دھڑا دھڑ" بیرونِ مملک جانے یعنی "برین ڈرین" کو روکنے کیلئے کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہے اس بارے میں سوچا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ ملک میں جس تیز رفتاری سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اْس سے تنگ آکر ہمارے نوجوان بیرونِ ممالک کا رخ کرہے ہیں ابھی چند دِن قبل یونان سے اٹلی روزگار کیلئے جانیوالے پاکستانی کشتی الٹنے سے سمندر کی نذر ہو گئے۔ آخر انسانی سمگلنگ کو روکنے والے ادارے کہاں سوئے ہوئے تھے۔ یقینا اس طرح کے المناک واقعات سے عالمی سطح پر ملک کی ساکھ بْری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب اپنے اختلافات بھلا کر بحثیت قوم متحد ہو جائیں اور دیوالیہ ہونے کے خطرے کے سامنے بند باندھ کر پاکستان دشمن طاقتوں کے ناپاک ارادوں اور خواہشوں کو خاک میں ملادیں۔اس عظیم مقصد کے حصول کیلئے ہمیں خراب حال معیشت کی SOSکال پر فوری ایکشن لینا ہوگااور معیشت کی بحالی کیلئے عملاً کام کرنا ہوگا اس میں کسی بھی مزید تاخیر کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمارے سب سیاستدانوں، حکومت اور اقتصادی ماہرین کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو موجودہ معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالنے اور اِ سے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھ جائیں۔
٭…٭…٭
پاکستانی معیشت کی "SOS"کال پر توجہ دیں
Jun 28, 2023